جموں کشمیر میں ان دنوں جو موسمیاتی صورتحال پائی جاتی ہے لوگ اس وجہ سے دل برداشہ دکھائی دیتے ہیں ۔کئی ہفتوں کی لگاتار خشک سالی کی وجہ سے ندی نالے سوکھ رہے ہیں ۔ دریائوں اور جھیلوں میں بھی پانی کی سطح میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اس وجہ سے شکارا مالکان اور آبی ٹرانسپورٹ چلانے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ موسمیات محکمے کا کہنا ہے کہ ابھی بارشوں کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ بلکہ اگلے ہفتے کے لئے خشک موسم کی پیشن گوئی کی گئی ہے ۔ اس طرح کے موسم کی وجہ سے فصلوں پر نمایاں اثرمحسوس کیا جارہاہے ۔ سیبوں کی فصل پر منفی اثرات کی وجہ سے کسانوں کو خسارے کا سامنا ہے ۔ شالی کی فصل تیار ہورہی ہے ۔ تاہم یہاں بھی کئی طرح کی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ اسی طرح سے ساگ زاروں میں سبزیاں اگانا مشکل ہورہاہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بازارمیں سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ ایک عام آدمی کے لئے روز سبزیاں خریدکر گھر لے جانا ناممکن بن گیا ہے ۔ بیماروں کے لئے پھلوں کا انتظام کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی موسمی صورتحال جاری رہی تو لوگوں کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔ گرد و غبار اٹھنے کی وجہ سے چھاتی اور دل کے امراض میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ خشک موسم کی وجہ سے پینے کے پانی کا انتظام کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے ۔ واٹر سپلائی کی سرکاری اسکیموں کے ناکارہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ عام شہری کے لئے اس طرح کی صورتحال کے اندر جینا انتہائی کٹھن بنتا جارہاہے ۔
پہلے مسلسل بارش اور اب لگاتار خشک موسم کی وجہ سے انسانی زندگی سخت مشکلات سے دوچار ہے ۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس پر کئی فورموں میں تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ جموں کشمیر میں موسم کی تبدیلی کے نمایاں اثرات دیکھے جارہے ہیں ۔ ستمبر مہینے کے دوران درجہ حرارت حد سے زیادہ بڑھ گیا ۔ پچھلی ایک صدی سے زیادہ عرصے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا اور بعض ایام کے دوران درجہ حرارت پنتیس ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا ۔ اس طرح کا درجہ حرارت موسم کے اندر غیر معمولی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے ۔ کئی لوگ پچھلی ایک دہائی کے دوران اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے عالمی سطح کے کئی اجلاسوں میں اس مسئلے کو اٹھاکر سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے دنیا کے بڑے ممالک کے لیڈروں کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینے پر زور دیا ۔ لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہاہے ۔ عالمی برادری کو تجارت کا بوت سر چڑھا ہے اور تمام ممالک کے سربراہان تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر زور دے رہے ہیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ اپنے عوام کو مالی خسارے سے بچایا جاسکے تاکہ مالی مسائل کی وجہ سے ان کی زندگی پریشانیوں کی شکار نہ ہوجائے ۔ ایسا سوچنا غلط نہیں ۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ قدرتی توازن کو بگاڑنے سے جو تباہیاں جنم لیں گی وہ انسانی زندگی میں زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ ہمارے ارد گرد جو صورتحال ان دنوں پائی جاتی ہے اس سے لوگ سخت پریشان ہیں ۔ روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینا ممکن نہیں ہورہاہے ۔ کئی علاقوں میں لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت محسوس ہورہی ہے ۔ پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے ۔ کھانے کے بغیر کچھ دن تو کاٹے جاسکتے ہیں ۔ لیکن پانی پئے بغیر زیادہ دن زندہ رہنا مشکل ہے ۔ ندی نالوں میں جس طرح سے پانی خشک ہورہاہے دیکھ کر اندازہ ہورہاہے کہ پیڑ پودے بھی جلد سوکھ جائیں گے ۔ ایسی صورتحال کے اندر درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ بلکہ زیریلی گیسوں میں نمایاں اضافہ ہوگا ۔ دوسری طرف گلیشروں کے جلد پگھلنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہاہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی ہر چہار طرف مشکلات کے گھیرے میں آرہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس صورتحال کو انسان نے اپنے ہاتھوں سے جنم دیا ہے ۔ انسانی سرگرمیاں موسم میں تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں ۔ ایسی سرگرمیوں پر مکمل روک لگانا ممکن نہیں ۔ تاہم ان کو ماحول دوست بنانا ضروری ہے ۔ ترقی کی دوڑ میں انسان یہ بھول گیا کہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے انسانی زندگی زیادہ دیر بحال نہیں رہ سکتی ہے ۔ جدید مشینوں کو تیار اور استعمال کرنے سے انسانی زندگی آرام دہ بن گئی ۔ لیکن بہت حد تک پیچیدگیوں کا شکار ہوگئی ۔ کئی طرح کی مشکلات پیدا ہوگئیں اور انسانی زندگی پر الٹا برا اثر پڑگیا ۔ صحت کے مسائل پیدا ہوگئے اور قدرتی ماحول میں عدم توازن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں نے جنم لیا ۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پوری زندگی ہی ڈانوا ڈول ہوگئی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جموں کشمیر کے مقامی ادارے اس صورتحال پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ نظریں وزیراعظم پر لگی ہیں کہ وہی اس کا کوئی حل تلاش کریں گے ۔ ایک اکیلا آدمی پورے نظام کو بدل نہیں سکتا ۔ اس کے لئے مقامی طور کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض تشویش ظاہر کرنا کافی نہیں ۔ بلکہ حساس طبقوں کو حرکت میں آکر اس کے لئے کام کرنا ہوگا ۔ بلکہ اس کام کو نتیجہ خیز بنانا ضروری ہے ۔