ترجمہ وتلخیص۔ فاروق بانڈے
(نوٹ :رابن شرما ایک کینیڈین مصنف ہیں جو اپنی کتاب The Monk Who Sold his Ferrari کے لئے بہت مشہور ہوئے .شرما ہندوستانی نژاد ہیں۔ کتاب گفتگو کی شکل میں دو کرداروں، جولین مینٹل اور اس کے بہترین دوست جان کے ارد گرد تیار کی گئی ہے۔ جولین ہمالیہ کے سفر کے دوران اپنے روحانی تجربات بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے چھٹی والے گھر اور سرخ فیراری بیچنے کے بعد کیا تھا۔اس کتاب کی اب تک 40 لاکھ سے زیاد ہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔)
گزشتہ سے پیوستہ
مہمان کے زور دار قہقہے نے میرا شک درست ثابت کر دیا۔ میرے سامنے کھڑا نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ گمشدہ ہندوستانی یوگی جولین مینٹل تھا۔ میں اس کی ناقابل یقین تبدیلی پر حیران رہ گیا۔ میرے سابق ساتھی کی بھوت جیسی رنگت، بیمار جیسی کھانسی اور بے جان آنکھیں غائب ہو گئی تھیں۔ اس کی بوڑھی شخصیت او ر ضعیفانہ اظہار، جو اس کی ذاتی پہچان بن چکی، غائب ہو چکی تھی۔
اس کے بجائے، میرے سامنے کھڑا شخص بالکل صحت مند تھا اور اس کا جھریوں سے پاک چہر ہ دمک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں جو اس کی غیر معمولی طاقت کا روشندان ظاہر ہوتی تھیں۔ شاید اس سے زیادہ حیران کن وہ سکون تھا جو جولین سے ظاہر ہوتاتھا ۔ میں وہیںبیٹھ کر مکمل سکون محسوس کرکے اسے دیکھتا رہا ۔ اب وہ ایک بڑی قانونی فرم کے پریشان سینئر ”ٹائپ اے” وکیل نہیں تھے۔ اس کے بجائے میرے سامنے کھڑا شخص جوانی اور طاقت سے بھرا ۔۔ تبدیلی کا نمونہ تھا۔
اب آگے
باب 3
جولین مینٹل کی حیرت انگیز تبدیلی
میں اس نئے اور بہترین جولین مینٹل کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ”جو کچھ سال پہلے تھکے ہوئے بوڑھے کی طرح لگتا تھا وہ اب اتنا متحرک اورجوان کیسے ہو سکتا ہے؟” اس غیر یقینی تبدیلی پر میں حیرت زدہ تھا۔ ”کیایہ کوئی جادوئی دوائی تھی جواس کو جوانی کے چشمے سے پینے کی اجازت ملی تھی؟ ۔اس غیر معمولی تبدیلی کا راز کیا تھا؟۔
جولین نے سب سے پہلے بولا۔ اس نے مجھے بتایا کہ قانونی پیشے میں حد سے زیادہ مسابقت نے اس پر نہ صرف جسمانی اور جذباتی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی بہت زیادہ اثر ڈالا۔ تیز رفتاری اور لامحدود تقاضوںنے اسے ختم کر دیا تھا اور اسے کھوکھلا بنا دیا تھا ۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس کا جسم ٹوٹ چکا تھا اور اس کا دماغ اپنی تیزی کھو چکاتھا۔دل کا دورہ ایک سنگین مسئلے کی صرف ایک علامت تھی۔دنیا کے ایک اعلیٰ پایہ کے وکیل ہونے کے ناطے کام کے مسلسل دباؤ اور تھکا دینے والے شیڈول نے ان کی سب سے اہم ۔۔اور شاید سب سے ا نسانی خصوصیات۔۔ اس کی روح کو بھی توڈدیا تھا۔ جب ڈاکٹر نے اسے آخری وارننگ دی کہ وہ یا تو قانونی پیشہ چھوڑ دے یا زندہ رہنے کی امید، تو اس نے کہا کہ اس کو اپنے اندر کی اس آگ کو دوبارہ روشن کرنے کا ایک سنہری موقعہ ملا جوچھوٹی عمر میں اس کے اندر تھی۔۔وہ آگ جو بجھ چکی تھی کیونکہ وکالت خوشی کم اور کاروبار زیادہ بن چکا تھا۔ جولین واضع طور پر جوش ہو گیا جب اس نے یہ بتا دیا کہ کیسے اس نے اپنی ساری جائیداد بیچ دی اور ہندوستان کا رخ کیا، ایک ایسی سرزمین جس کی قدیم ثقافت اور صوفیانہ روایات نے انہیں ہمیشہ مسحور کیا تھا۔اس نے چھوٹے چھوٹے گاؤں کا سفر کیا – کبھی پیدل اور کبھی ٹرین سے۔ اس نے وہاں نئے رسم و رواج سیکھے، غیر فانی قدرتی نظارے دیکھے اور ہندوستانی لوگوں سے بڑھتی ہوئی محبت، جنہوں نے زندگی کے حقیقی معنی کے بارے میں گرمجوشی، رحم دلی، ایک تازگی آمیز نقط نظر پیدا کیا۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے بھی جن کے پاس تھوڑا تھا، انہوں نے اپنے گھر۔۔اپنے دل بھی۔۔اس تھکے ہارے غیر ملکی مہمان کے لئے کھول دئے۔جیسے جیسے اس سحر انگیز ماحول میں دن ہفتوں میں ڈھلتے گئے، جولین آہستہ آہستہ خود کو ،شاید بچپن کے بعد پہلی بار،زندہ اور مکمل محسو س کرنے لگا ۔ زندگی گزانے کے لیے اس کے جوش اور توانائی کے ساتھ ساتھ، اس کی فطری تجسس اور تخلیقی صلاحیت آہستہ آہستہ واپس آنے لگی۔ وہ زیادہ خوشی اور سکون محسوس کرنے لگا اور اس کی ہنسی دوبارہ لوٹ آئی۔
جولین نے اپنے وقت کے ہر لمحے کو اس غیر ملکی سرزمین پرگلے لگایا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ان کا ہندوستان کا دورہ زیادہ کام کے دباؤ سے دماغ کو آرام دینے کے لیے ایک عام چھٹی سے کہیں زیادہ تھا۔ اس نے دور دراز ملک میں گزار ے وقت کو اپنے’’ نفس کی ذاتی مہم جوئی ‘ کے طورقرار دیا۔ اس نے مجھے اعتماد کے ساتھ بتایا کہ وہ پرعزم ہے کہ وہ جان لے گا کہ وہ واقعی کون ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ایسا کرنے کے لیے اس کی پہلی ترجیح اس ثقافت کے قدیم دانائی کے وسیع سمندر سے جوڈنے کو دی تاکہ ایک زیادہ نتیجہ خیز، بھرپور اور روشن زندگی گزار سکے۔
جولین نے کہا، ”میرا یہ کہنے کا مطلب نہیں، جان، لیکن یہ ایسا تھا جیسے میرے پاس کوئی اندرونی حکم تھا، ایک ہدایت مجھے بتاتی تھی کہ مجھے اس چنگاری کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے روحانی سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے، جو میں نے کھو دی تھی۔” ”یہ میرے لیے بہت آزادی کا وقت تھا۔”۔
اس نے جتنا زیادہ سفر کیا، اتنا ہی اس نے ہندوستانی سنیاسیوں کے بارے میں سنا جن کی عمر سو سال سے زیادہ تھی اور جنہوں نے اپنی عمر کے باوجود خود کو جوان، توانا اور طاقتور رکھا تھا۔ مزید سفر کرتے ہوئے، اس نے مزید عمر رسیدہ یوگیوں کے بارے میں جانا (جن کی عمر معلوم نہیں تھی) جنہیں دماغ پر قابو پانے اور روحانی بیداری کے فن میں مہارت حاصل کی تھی۔ جتنا اس نے یہ سب دیکھا، انسانی فطرت کے ان عجائبات میں موجود حرکیات کو سمجھنے کی خواہش رکھتا تھا اس امید کے ساتھ کہ وہ ان فلسفوں کو اپنی زندگی میں لاگو کر سکے۔