
انعام فجر کی نماز سے فارغ ہوا تھا کہ اچانک بہت سارے رشتہ داروں نے ایک ساتھ فون کرنا شروع کر دیا۔ اتنی صبح صبح فون آنے کا مطلب کسی رشتہ دار کی وفات یا کسی بری خبر کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
” آپ کی پھوپھی سعدیہ کا آج صبح اچانک انتقال ہوا”
انعام کا جسم کانپنے لگا۔
” میری پھوپھی بالکل تندرست تھیں ، پھر یہ کیسے ممکن ہے؟ ”
وہ بے تحاشا رونے لگا۔” میں نے بھی پچھلے چار سالوں سے پھوپھی جان کو نہ کبھی فون کیا تھا اور نہ ہی ان کے گھر گیا تھا۔ میں بھی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گیا تھا کہ شاید اب خون کے رشتے میرے لیے کسی اہمیت کے حامل نہ رہے تھے”انعام من ہی من میں سوچ رہا تھا۔
انعام جلدی سے اپنی پھوپھی جان کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ پھوپھی جان کے گھر رشتہ داروں کی کافی بھیڑ تھی۔ پھوپھی جان کے گھر پر قیامت برپا ہوئی تھی۔ اس کے تمام اہل خانہ زار و قطار رو رہے تھے۔ انعام کام باپ بھی ایک کونے میں رو رہا تھا، شاید اپنے آپ سے بیزار تھا۔
دیر رات پکنک سے لوٹ کر انعام کی پھوپھی سعدیہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں محو ہو گئی تھی ۔ سعدیہ تین بچوں کی ماں تھی، ایک لڑکی اور دو جواں سال لڑکے۔۔ زندگی میں بہت سے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی عورت جس نے کبھی ہار نہیں مانی اور ہمیشہ اپنے بچوں کے کامیاب مستقبل کے لیے کافی جدوجہد کی ۔ آج صبح سے ہی وہ اضطرابی حالت میں اپنے شوہر شاہد اور چھوٹے بیٹے طیب سے باہر گھومنے کی ضد پر اڑی تھی۔ دن کے دو بجے سعدیہ شاہد اور طیب کے ہمراہ پکنک کے لیے روانہ ہو گئی۔ راستے میں سعدیہ نے بچپن سے لے کر آج تک کے حالات کو قدرے اطمینان کے ساتھ بیان کرنا شروع کیا تھا کہ اچانک اس نے تو طیب کو گاڑی روکنے کا حکم دیا۔
” طیب یہ میرا ننھیال ہے۔ جب سے میرے ماموں جان کا انتقال ہوا، تب سے یہاں کبھی آنا نہ ہوا۔ دیکھو یہاں کی تازہ ہوا کس طرح میرے روح کو سکون اور راحت کا احساس دلا رہی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کی وہ نہ مٹنے والی یادیں اندر ہی اندر کھاۓ جا رہی ہیں۔ میں نے اپنے بچپن کا بیشتر وقت یہاں کے ندی نالوں میں کاغذ کی کشتی سے کھیلنے میں گذارا ہے۔ پتا نہیں ہمارے رشتے کو کس کی نظر لگ گئی۔ ماموں کے گزر جانے کے بعد کسی نے ہماری خبر تک نہ لی۔ میں اس ندی کا پانی پی کر آتی ہوں، ہو سکتا ہے میری اس بے چینی میں کچھ حد تک راحت نصیب ہو۔۔۔”
"امّی جان وہ زمانہ گزر چکا ہے۔ آج کل کے رشتے ناطے بناوٹی ہیں۔ سب لوگ اپنی زندگی میں مصروف ہو چکے ہیں۔ اب آپ اپنے بھائی کو ہی دیکھیے۔۔۔ وہ بھی تو میرا ماموں ہے۔۔۔ پچھلے پانچ سال سے ہمارے ساتھ وہ بات تک نہیں کر رہے ہیں اور ان کے بچوں نے بھی ہم سے بلا وجہ فاصلہ قائم کر کے رکھا ہے۔” طیب نے جذباتی لہجے میں کہا۔
” آپ نے تو اپنے بچپن کا بیشتر وقت اپنے ننھیال میں گذارا ہے۔ اور ہمیں دیکھو امی جان۔۔۔۔۔! کل اپنے ماموں کو سلام کیا تھا اور اس نے اپنے گردن دوسری سمت موڑ دی۔ اتنا ہی نہیں۔۔۔ آج میرے چچا جان کی شادی ہے۔۔ کیا انہوں نے ہم کو شادی کی تقریب پر مدعو کیا؟ نہیں نا۔۔۔۔؟
امی جان کیوں اپنے دماغ پر زور دے رہی ہو؟
آپ کا رشتہ اپنے خاندان سے ہے ۔ہماری رگوں میں آپ کا خون ہے۔”
سعدیہ کی آنکھوں سے آنسوں کی قطار جاری تھی۔ میرا ننھیال، میرا بھائی، میرا دیور۔۔ سب لوگ ہمیں بھول گئے۔۔ آخر کس چیز نے ایک انسان کے ضمیر کو اتنا مردہ بنا دیا؟ سعدیہ کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔۔
"طیب مجھے اس برفیلے پہاڑ کے دامن تک جانا ہے”۔ سعدیہ نے اپنی انگلی سے دور ایک برفیلے پہاڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
طیب نے گاڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔
"آج ان راستوں نے میری روح کو تازہ کیا۔ مجھے لگ رہا ہے میرے اندر جتنی بھی بیماریوں نے جنم لیا تھا آج ان بیماریوں کا وجود مکمل طور سے ختم ہو جائے گا۔ شاہد آج آپ نے یہاں لا کر مجھ پر ایک احسان کیا ہے۔”
"سعدیہ آپ میری شریکِ حیات ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے پریوار کے لیے خون پسینہ ایک کیا ہے۔ میرے اہل خانہ کی خوشی میری اولین ترجیح رہی ہے اور ہاں اپنے رشتے داروں کے بارے میں غلط بیانی جائز نہیں۔ رشتوں کو توڑنا اور ان سے دوری قائم کر لینا ہمارے مذہب کے بالکل خلاف ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے یا میرے رشتہ دار ہماری خبر تک نہیں لیتے لیکن میرے خیال سے ان رشتوں کو مضبوط بنانے میں ہمیں پہل کرنی چاہیے۔”
"امی جان یہ دیکھو! برفیلا پہاڑ آپ کی انکھوں کے سامنے ہے۔” طیب نے پرجوش انداز میں کہا۔
سعدیہ نے شاہد اور طیب کے ہمراہ اس برفیلے پہاڑ کے دامن میں کھانا کھایا اور تھوڑی دیر سیر و تفریح کے بعد اپنے گھر کی جانب چل دیے۔
رات کو گھر لوٹتے ہی سعدیہ نے برسوں بعد اپنے من کے بوجھ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔ آج اس نے لمبے عرصے کے بعد ننھیال کے راستوں پر پھر سے سفر کیا تھا۔ سعدیہ کو محسوس ہو رہا تھا ننھیال کی ٹھنڈی اور معتدل ہوا نے اس کے جسم کے ہر حصے کو سکون ریز کیا تھا۔ بغل میں دیور کے گھر شادی کے گیتوں کی آواز نے سعدیہ کو چند لمحوں کے لیے اضطرابی حالت میں ڈال دیا۔ لیکن اپنی بیٹی کے گلے سے پہلی بار ایک خوبصورت گانے کی دلکش آواز نے سعدیہ کو راحت بخشی۔ سعدیہ اپنے بچوں اور شوہر کے سامنے پرجوش انداز میں گانے لگی۔ دیور کی جانب سے مدعو نہ کرنے کا غم سعدیہ نے بڑے اطمینان سے اندر ہی اندر چھپا لیا تھا۔ سعدیہ نے اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر دیور کی اچھی خاصی پرورش کی تھی اور جائیداد کے معمولی بٹوارے نے اس رشتے کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا تھا۔ وہ سعدیہ کو اپنا دشمن سمجھنے لگا اور اس نے اپنے بھائی کے پورے اہل خانہ کے ساتھ اپنا رشتہ پل بھر میں ختم کر دیا تھا۔
سعدیہ نے دیر رات تک اپنے بچوں کے ہمراہ ہنستے کھیلتے کافی وقت صرف کیا اور وہ اپنی بیٹی کے بستر کے پاس چلی گئی۔
ممی: ” مجھے آپ کے خراٹے بالکل پسند نہیں۔ پلیز آپ یہاں سے چلی جائیں "۔۔
سعدیہ بیٹی کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چوم کر طیب کے پاس چلی گئی۔
سعدیہ طیب کے چہرے کو بہت دیر تک محبت سے تکتی رہی۔ طیب اس کا چہیتا بیٹا تھا۔ وہ بیٹا جو آج بھی روز اپنی ماں کے پاؤں دھو تا تھا اور بچے کی طرح اس کو نہلاتا بھی تھا۔ کچھ دیر سونے کے بعد سعدیہ اضطرابی حالت میں اپنے شوہر کے کمرے میں چلی گئی۔ شاہد گہری نیند میں تھا۔ سعدیہ نے اس کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔
آج پتا نہیں کیوں صبح سے ہی سعدیہ اپنے تمام رشتہ داروں کی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ سعدیہ کی متورم آنکھوں میں ہر ایک رشتہ دار کا عکس قید ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں بے تحاشا نمی کو محسوس کیا۔ وہ سونے کی ایک بے سود کوشش کر رہی تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہو چکی تھی۔ اس کے کانوں میں شہنائی کی دلکش آواز گونج رہی تھی اور وہ اپنے دیور کو من میں ہی شادی کے مقدس موقع پر دعائیں دے رہی تھی۔ سعدیہ کا ذہن مفلوج ہو چکا تھا۔ کچھ دیر بعد سوچنے کا تسلسل اچانک سے ختم ہو گیا۔ سعدیہ نے سانس لینے میں کافی تکلیف محسوس کی۔ سعدیہ کی سانسیں دھیرے دھیرے ختم ہونے کے عروج پر تھیں۔ سعدیہ کی روح اپنی پرواز پر تھا اور اس حالت میں بھی اسے اپنے رشتہ داروں کی فکر ستا رہی تھی۔ سعدیہ کی آنکھوں کے سامنے ماموں جان اپنے کھلے بازؤں سے اس کا استقبال کر رہا تھا۔
شاہد نے فجر کی اذان سنتے ہی سعدیہ کو جگانے کی کوشش کی۔ فجر نماز کا وقت قریب تھا۔ سعدیہ کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ شاہد کی زوردار چیخ سارے گھر میں گونج رہی تھی۔ بچے ایک دم سے جاگ گئے اور اپنی ماں کو مردہ پا کر سب تھرتھرانے لگے۔ رات کو جس ماں کے ہمراہ وہ کھیل رہے تھے، اب وہ ماں اس دنیا سے کوسوں دور چلی گئی تھیں۔
میت کے گھر انعام نے رشتے داروں کا جم گفیر دیکھ کر غم اور شرمندگی سے نڈھال وہ خود سے سوال کرنے لگا۔۔۔۔”کیا واقعی پھوپھی جان کے اتنے رشتہ دار تھے؟” میں نے کبھی بھی ان میں سے کسی کو پھوپھی جان کے گھر پر نہیں دیکھا تھا۔ آج جب پھوپھی جان اس دنیا میں نہیں ہے، پھر یہ رشتہ دار کیوں زور زور سے اپنا سینہ پیٹ رہے ہیں؟ کیا کسی کی موت پر آنسوں بہانے سے رشتہ داری کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ انعام خود اپنے ضمیر سے بھی یہ سوال کر رہا تھا۔
چند رشتہ دار، جن کو وقت پر آفس میں حاضری لگانی تھی، جلد سے جلد تدفین کرنے کی استدعا کر رہے تھے۔ پھوپھی جان کا نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد انعام بھی میت کے ساتھ قبرستان چلا گیا، جہاں ابھی قبر کھودی جا رہی تھی۔ اس قبر سے کچھ ہڑیاں برآمد ہوئی۔ انعام یہ سب دیکھ کر لرز اٹھا۔ "یہ ہڑیاں بھی کسی انسان کے جسم کا حصہ رہی ہوں گی، اس کے بھی رشتہ دار ہوں گے، کیا پتا اس کے سارے رشتہ دار اس دنیا سے رحلت کر گئے ہوں گے، کیا اس زمانے میں بھی لوگ اپنے خون کے رشتوں کی اس طرح بے قدری کرتے ہوں گے، یا پھر وقت نے کروٹ لی ہے”۔۔۔ انعام کی سوچ کا تسلسل پھوپھی جان کو قبر میں ڈالتے ہی ٹوٹ گیا۔ انعام اپنے آپ کو بری طرح کوس رہا تھا۔
انعام کے اندر غم کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔ اس نے پھوپھی جان کے بچوں کو تسلی دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اپنی ہمدردی دکھانے کے بہانے انعام نے پھوپھی جان کی تصویر فیس بک پر ڈال دی۔ تھوڑی ہی دیر میں اجنبی دوستوں کے کمنٹ آنے لگے لیکن ایک عزیز دوست کے ٹوکنے پر انعام نے اس تصویر کو فیس بک سے حذف کر دیا۔ دوست کا کہنا تھاکہ ” عورتیں گھروں کی زینت ہوتی ہیں اور اس طرح فیس بک پر ان کی نمائش کرنا غیر اخلاقی اور ناپسندیدہ عمل ہے”۔
پھوپھی جان کے بچوں کی حالت دیکھ کر انعام کو گمان تھا کہ شاید اپنی ماں کی جدائی برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ چار دنوں تک انعام پھوپھی جان کے گھر پر ہی رہا۔ انعام نے قسم کھائی کہ آج کے بعد ہر ایک رشتہ دار کے گھر جا کر ان کی خبر لےگا۔ انعام کے وجود میں ایک معنی خیز فکر مندی اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیات صاف صاف عیاں تھیں۔
اپنے ضمیر سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق ٹھیک ایک ہفتہ بعد انعام اپنی مرحومہ پھوپھی جان کے گھر پہنچا۔ گھر کا ماحول دیکھ کر انعام چونک گیا۔ سب لوگ ہاتھوں میں موبائل لئے اپنی اپنی دنیا میں محو تھے۔ پھوپھی جان ان کے دل و دماغ سے تقریباََ اوجھل ہو چکی تھی۔ انعام کو دیکھ کر سب نے اپنی اپنی نظریں چرا لیں۔ شاید وہ لوگ انعام سے اب بھی بیزار تھے یا پھر پھوپھی جان کی موت کے ساتھ ہی یہ رشتہ بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا تھا۔
