چھ دہائیوں بعد،، یوم رحیم صاب ۔سوپور میں ،۱۳ جولائی مشہور و معروف صوفی شاعر بلکہ صوفی شعرا کے تاج میں چمکتے ،دمکتے کوہِ نور ، رحیم صاب کے نام سے مشہور ، یوم رحیم صاب سوپور میںمنعقد ہو اگر میری یاداشت ابھی درست ہے تو ٹھیک ۶۲برس کے بعد پھر ایک بار یہ دن منایا گیا اور اس سلسلے میںکلچرل اکادمی کے علاوہ رحیم صاب سے منسوب سوپور ہی کی ایک انجمن نے اہتمام کیاتھا،جس میں اطراف و اکناف سے رحیم صاب کے چاہنے والے موجود تھے ، ڈاک بنگلہ سوپور کئی لحاظ سے اس طرح کی محفلوں کے لئے بڑا ہی مناسب اور موزون جگہ ہے ،،رحیم صاب پرجو بھی تھوڑی بہت تحقیق ہوئی ہے بہت ہی ناکافی اور کم ہے اور اس شان اور اس جیسے بلند وبالا صوفی شاعر اور روحانی بزرگ کی زندگی پر جتنا کام ہونا چاہئے تھا ۔نہیں ہوا ہے ان کی شاعری اور کلام کی نسبت سے یہ بات نہیں کر رہا کیونکہ صوفیانہ کلام ،کی کسوٹی وہ عام فہم کسوٹی ہو ہی نہیں سکتی جس میں ، ، تشبیہات ، استعارے ، اوزان ، بحریں ، ردیف و قافیہ اور پھر الفاظ کا چناؤوغیرہ کے بعد شعر میں سموئے ہوئے خیال کی نزاکت اور خوبصورتی کو پرکھتے ہیں ، صوفیانہ کلام کوئی اور چیز ہے کیونکہ یہ کلام شاعر کے اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا اظہار ہوتا ہے جو اس سے راہ سلوک اور تصوف کے منازل طئے کرنے کے دوران حاصل ہوتے ہیں اس لئے یہ وہ مخفی مشاہدات ہیں جو کھلے عام شاید ظاہر نہیں کئے جاسکتے ، بہر حال اس پر بحث بعد میں ، پہلے ، میں نے ڈائس پر سوپور کے ہی ایک ابھرتے ہوئے کشمیری شاعر شہزادہؔ منظور کو دیکھا ، ظاہر ہے کہ ان کا بھی اس انعقاد میں کافی حصہ رہا ہوگا ، چونکہ میں نے تاریخ سوپو ر ’’ میرے سوپور تجھ پہ دل قربان ‘‘ میں بہت سارے شعرا کی مختصر سوانح اور ان کے کلام کا بھی مختصر سا جائزہ لیا ہے اور یہ کتاب مارکیٹ میں بھی موجود ہے، مقام کے لحاظ سے ہم نے بھی رحیم صاب سوپور کو اس کتاب میں اول درجے پر رکھا ہے اور یہ ان کا حق تھا ،، جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ رحیم صاب ۱۷۷۵ میں یا اس کے آس پاس پیدا ہوئے اور روایات کے مطابق ۷۵ سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں اس طرح سے وہ اس دور سے کم وبیش ڈھائی سو برس پہلے سوپور میں موجودرہے ہیں اور سوپور میں آج تک ان سے کئی محر العقول روایات منسوب ہیں وہ ایک بہت بڑے شاعر ہی نہیں بلکہ اول درجے کے صوفی بھی رہے ہیں پر ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہر شا عرصوفی نہیں ہوتا اور کسی بھی اچھے صوفی سنت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ شاعر بھی ہو ، مگر رحیم صاب سوپور کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا ،سر زمین کشمیر میں صوفی شعرا کی وہ کہکشاں جوآسمان ادب پہ جلوہ افروز نظر آتی ہے جسکا جواب نہیں اور جو بے مثال بھی ہے ان میں شمس فقیر ، احمد بٹوار،نعمہ صاب، سوچھ کرال، محمود گامی ،رحمان ڈاراور متاخرین میں احد زرگر ، محی الدین گلشنؔ جیسے آفتاب و ماہتاب نظر آتے ہیںرحیم صاب بیشک صوفی تھے اور اپنے زمانے کے بے مثال شاعر رہے ہیں اور ان کے کلام کی تازگی ، حسن ، مسائل تصوف کا اظہار اتنا لمبا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی ویسا ہی تازہ اور دلنشین ہے ۔اور آج بھی اپنے اندر ان ہی سرمدیاور فرحت بخش کیفیات کا حامل ہے ان کے والد ماجد کا نام عبدالرحمان شاہ تھا اصلی جائے مسکن پہرو تھا اور ان کے والد سوپور آکر بس گئے تو یہیں کے ہو کے رہ گئے یہ گھرانہ علمی لحاظ سے قابل عزت سمجھا جاتا تھا ، رحیم سوپوری مروجہ تعلیم سے آراستہ تھے بلکہ عربی اور فارسی پر بھی دسترس تھی آپ کے مرشد مشہور بزرگ اور درویش قادر صاب رینن (رفیع آباد) تھے مشہور روایت ہے کہ رحیم صاب ایک بار اپنے مرشد کے ساتھ جنگل کی طرف چلے گئے تھے اس اثنا میں کچھ ہستیاں قادر صاب کے ساتھ ملاقی ہوئیںاور انہوں نے مل کر معرفت کے جام نوش کئے ۔ ان پیالوںکو چاٹنا رحیم کے نصیب میں تھا اور اسی لمحے سے رحیم کی نگاہوں سے جو پردے اٹھتے گئے اور جو روحانی مشاہدات انہیں حاصل ہوتے گئے انہیںاپنے شعروں میں ڈھالتے گئے یہی وہ لمحہ تھا جب رحیم شاہ جولہا ،رحیم فقیر کے قالب میں ڈھل گیا ، شایدکچھ لوگ اس پہ اعتراض کریں ، یا اس معمے کو سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ مگر یہ کوئی نیا یا انوکھا واقع نہیں بلکہ صوفیا عظام کے ساتھ اسطرح کے واقعات اکثر و بیشتر ہوتے رہے ہیں جب ان کا حال و قال اچانک بدل گیا یا کسی مرد حق و مومن کی ایک نگاہ نے انہیں یکسر ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں پہنچا دیا ہے اور ایسے واقعات سے لگ بھگ تمام اولیا یا اہل صفہ دوچار ہوئے ہیں ۔اور ان میں ہمیں کوئی شک نہیں ، ،بہرحال ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبروں کو معجزات اور اولیأ حضرات کو کرامات سے سر فراز کیا ہے جن کے متعلق عقلی دلائل کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی رحیم صاب کا پیشہ (کار بافند) یعنی جو لہا تھے جیسا اس نے خود اپنے ایک شعر میں کہا ’’ر حیم بسیار شرمندہ۔۔ کرین کار بافندہ ، )‘‘ میری نظروں سے کسی کشمیری شاعر اور محقق کی کو ئی کتاب گذری ہے جس میں یہ بتایا گیاتھا کہ رحیم صاب (پہل یا چوپان ) خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو سراسر غلط بیانی اور نا قص تحقیق کا نتیجہ ہے مرحوم محمد امین شکیبؔ نے بھی رحیم صاب پر تحقیق کی ہے اور ساہتیہ اکا دمی نے اس تحقیقی کتاب کو چھاپا بھی ہے ، اس میں ر حیم صاب پر تھوڑا سا مواد دستیاب ہے ا مجھ سے کئی سوپوری بزرگوں نے کہا ہے کہ رحیم صاب نے اپنی زندگی میں اسی محلہ تیلیاں آرمپورہ سوپور میں تیلیوں کے گھرانے سے ایک اور اچھے اور باکمال شاعر کے جنم لینے کی پیش گوئی کی تھی جو ،عمہ خوجہ کے جنم لینے سے پوری ہوئی عمہ خوجہ محلہ تیلیاں میں ایک تیلی گھر میں ہی پیدا ہوا اور ان کا تخلص الفت ؔ تھامگر فی الحال ہم رحیم صاب کی بات کرتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں جہاںتصوف کے رنگوں کو نمایاں کیا ہے ونہیں پر ویدانتک یا ترکہ فلاسفی پر اپنی دسترس کا بھی اظہار کیا ہے مگر بنیادی طوررحیم صاب عاشق رسول ﷺ ہیں اور ان کی شاعری کا نیو کلیس یہی عشق ہے جس سے علامہ ؒ ام الکتاب کہتے ہیں ، انسانی وجود ،کائنات سے اس کا تعلق ، اور اپنی ذات ا کی پہچان ،، اس کے بغیر پڑھنے سمجھنے کے لئے دنیا میں کیا رہ جاتا ہے کیونکہ( جس نے اپنی ذات کو پہچانا اسی نے مجھے یعنی اللہ کو پہچانا )تو رحیم نے بھی اسی تصوف کی راہ میں بہت ساری منزلیں طئے کی ہیں ، ، یہاں وہ اقبال اور رومی و جامی کے ہم سفر کہے جاسکتے ہیں کیونکہ عشق رسولﷺ ہی ان بلند وبالا فقیروں کا ماحاصل اور منزل رہی ہے ، ( کعبہء من قبلہء من، دین من ایمانِ من ) ، رحیم صاب سے بہت ساری روایات منسوب ہیں یہ بھی روایت ہے کہ ایک بار معراج عالم کے موقعے پہ رحیم صاب کے چند مرید رفیع آباد سے شام کورحیم صاب کے گھر پہنچے کیونکہ سرینگر تک کا سفر ایک دن کا اُن دنوں نہیں تھا رحم صاب نے اپنے مریدوں کو عشایا فجر پڑھانے کے بعد درود پڑھنے کی تلقین کی اور اسی دورا ن کھڑکی سے ہاتھ باہر کرکے موئے شریف ہاتھ میں لیکر اپنے مریدوں کو دیدار کرایا یہ ایک مشہور رو ا یت ہے کچھ اور بھی روایات ہیں ، محمود گامی سے رحیم صاب کی ملاقات کا واقعہ مستند ہے، کہتے ہیں کہ محمود رحیم صاب سے ملنے کے لئے سوپور تشریف لائے اور رحیم صاب کو دیکھتے ہی ان کی رگ شرارت پھڑکی اور یوں سلام کی ( اسلام علیکم رحیم صاب نمبلی ) اور رحیم صاب نے بر جستہ جواب دیا (وعلیکم السلام محمود گامہ جنگلی)بہرحال اس ملاقات کا یہ بھی واقعہ ہے کہ رحیم صاب نے (دہرئے) بجاکر محمود کی کسی غزل کے جواب میں اپنی شہرہ آفاق غزل ( حالِ دل پنن دہرء ونن ۔ شرن گوم کنن،شرن گوم کنن ) تخلیق کی۔ رحیم صاب کے کلام کے بغیر کوئی صوفی محفل مکمل نہیں ہوتی اور زما نہ گزرنے کے ساتھ ساتھ رحیم صاب کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ، ایسے لوگ بہر حال مرنے یا انتقال کے بعد ہی حیات جاوداں کے حامل ہوجاتے ہیں جتنا بھی کلام رحیم صاب کا چھپ چکا ہے اس کی بنا پر رحیم صاب کو صوفی شعرا میں ایک منفرد حثیت حاصل ہے اور کشمیری شعر وادب خصو صاً صوفی شاعری کا تذکرہ ان کے بغیر کسی بھی طرح سے مکمل نہیں کہلایا جاسکتا اس محلے میں اور بھی کئی مشہور شعرا حضرات پیدا ہوئے ہیں جن میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے عمہ خوجہ متخلص الفت ؔکشمیری،احد کھار اور محمد کھار قابل ذکر ہیںرحیم صاب صوفی شعرا کے سر تاج کہلائے جاتے ہیں ان کا کلام ان منازل کا پتہ بتادیتا ہے جو سلوک سے منسلک ہیںاور اس بات کااس کلام کو پرکھنے والوں کا یقین ہے کہ رحیم نے صوفیت کے جھرنوں سے بہت سارا پانی پیا تھا ،لیکن ان پر ابھی بہت سا تحقیقی کام باقی ہے جو ان کی شاعری اور کلام کی گہرایوں کو منکشف کر سکے ۔وہ آمپورہ (چنکی پورہ) میں آرام فرما ہیں ، مرحوم ملک عبد المجید آرمپورہ نے ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا تھا کہ ان کے دادا محمد عبداللہ ملک کے پاس رحیم صاب کے قلمی نسخے موجود تھے جنہیں کبھی مرحوم ٹاک زینہ گیری نے کچھ دنوں کے لئے مطالعے کی غرض سے لیا تھا ،ان قلمی نسخوںکا زیاںکشمیری زباں اور کاشُرصوفی ادب کے لئے المیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔
i