تحریر:شہراز احمد میر
اب جبکہ ملک میں کروناکا قہر کم ہو گیا ہے تو حکومت نے تمام سرگرمیاں پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے کی طرح تعلیمی ادارے کھل جاینگے۔حلانکہ اسکول میں بچوں اور ٹیچرس کو ماسک اور دو گز کی دوری کا احتیاطی تدابیر برقرار رکھنا ہوگی۔ تعلیمی اداروں کا پہلے کی طرح کھلنا خوش آئند اقدام ہے۔ اسکول کھلنے کا سب سے زیادہ فائدہ خاص طور پر دیہی علاقوں کے بچوں کو ہوگا۔ جو کبھی نیٹ ورک کی کمی تو کچھ بچے کمزور معاشی حالت کی وجہ سے آن لائن کلاسسز میں شامل نہیں ہو پاتے تھے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ جنہیں تعلیم کے معاملے میں گھر کے لڑکوں پڑ کبھی ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں لڑکیوں کے اسکول سے دور ہونے کی شرح سب سے زیادہ درج کی گئی ہے، جو بہت تشویشناک ہے۔اسکول سے دوری کی وجہ سے کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کی شرح میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔
تعلیم کا یہ سفر دنیا بھر میں جاری تھا، بچے و جوان سب اس زیور سے آراستہ ہورہے تھے ا کہ اچانک سال 2019 میں کرونا نامی وبا نے پوری دنیا میں ہل چل مچا دی۔ اس سے پھیلنے والی بیماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا اور اسکول و کالج وغیرہ بند ہو گئے۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی پریشان ہوگئے۔ اس وبائی بیماری نے جہاں دیگر شعباجات کو متاثر کیا وہیں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ اس وبائی بیماری سے متاثر ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء کو بہت بھاری تعلیمی نقصان اٹھانا پڑاہے۔ بچے اسکول بند ہونے کی وجہ سے غلط روی کا شکار ہوئے۔ کچھ بچے گھر کی خراب حالت کے سبب کام پر لگ گئے، کچھ بچے گاؤں چلے گئے۔ کچھ گھر ہی میں پڑھنے لگے مگر اسکول جیسی تعلیمی ماحول انہیں کہاں مل سکتی ہے؟اس لاک ڈاؤن نے غریب اور مزدور طبقے کی کمر توڑ دی۔ گھروں کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر دھیان نہیں دے پا رہے تھے۔ بہت سے بچوں نے اپنی تعلیم چھوڑ دی اور مزدوری کرنے لگے۔ جہاں ملک کے دیگر حصوں میں تعلیم کا سلسلہ گویا تھم کر رہ گیا وہیں ضلع پونچھ جو پہلے سے ہی تعلیمی پستی کا شکار تھا، یہاں کے بچوں کی تعلیم پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں بھی تعلیمی بہران کی وجہ سے بچوں کے مستقبل داغدار ہوئے ہیں۔ اپنی ستم ظریفی بیان کرتے ہوئے والدین نے بتایا کہ کرونا کی وجہ سے اسکول بند ہونے سے ہمارے بچوں کی زندگی تباہ ہوگئی ہے۔وہ تعلیم کی لوسے دور ہو گئے ہیں۔ اس تعلق سے نزیر احمد عمر 40،منڈی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال سے میرے بچے اسکول سے ودر ہیں کیونکہ گھر پر تعلیم کا کوئی بہترنظام نہیں تھا۔ وہیں ایک اور مقامی شخص محمد اسلم کا کہنا ہے کہ ”میرے بچے کرونا وائرس کے سبب پڑھنے لکھنے سے بلکل دور ہو چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے آن لائن کلاسز شروع کی گئیں لیکن ان دیہی علاقاجات میں نیٹورک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے یہ سہولت حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتے تھے۔تمام والدین اور بچوں کی زبان پر یہی الفاظ گردش کرتے رہے کہ تعلیی بہران کی وجہ سے ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ایسے میں اب پہلے جیسے حالات کو دیکھتے ہوئے والدین سب سے ذیادہ خوش ہیں۔
اس وبائی بیماری کے دوران ہوئے تعلیمی نقصان کے تعلق سے جب اساتذہ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ”کرونا کے دوران جو نقصان کاروبار میں ہوا ہے وہ کاروبار دوبارہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔کارخانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن تعلیم وہ واحد میدان ہے جس کے نقصان کو کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ تعلیم ایک سلسلہ وار منزل کا نام ہے جب تسلسل ٹوٹ جاتا ہے تو طلباء کے دماغ دوسرے کاموں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا جو سال برباد ہو گیا وہ لوٹ کر نہیں آتا“ تحصیل منڈی کے گاؤں دھڑا کے ایک استاد”ماسٹر محمد رشید کا کہنا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام جو کہ سلسلہ وار چل رہا تھا،اچانک اس وبائی بیماری کی نظر ہوگیا۔انہوں نے کہا میں لگ بھگ تیس سال سے استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا ہوں۔ لیکن جو تعلیمی بہران اس کرونا وائرس کے دوران ہوا وہ آج سے قبل میں نے نہیں دیکھا۔
ضلع پونچھ کے رہائشی آصف حسین کا کہنا ہے کہ اسکول جیسی درسگاہوں کو کھولازمی ہو گیا تھاکیونکہ ہماری ذہنی صلاحیت تعلیم کے بغیر مفقود ہوتی جا رہی تھی۔گزشتہ دو برسوں سے تعلیمی میدان میں کافی نقصان ہوا ہے۔ اس کی تلافی کرنا آسان نہیں ہے۔ اس وبائی بیماری میں ہوئے نقصان کو پورا کرنے کے لئے محکمہ تعلیم کی جانب سے آن لائن تعلیم تو شروع ہوئی مگر اکثر طلبہ موبائل نہ ہونے کی وجہ سے اس تعلیم سے محروم ہوگئے۔مقامی لوگوں نے اس بہران کے تعلق سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوا کہا کہ حکومت کو تعلیمی ادارے بہت پہلے کھول دینے چاہیے تھے اور ہمارے بچوں کو جو نقصان گزشتہ دو برسوں میں ہوا اسکی برپائی کرنے کے لئے اضافی کلاسز کا معقول انتظام کرنا چاہیے تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے کیسے انکار ہو سکتا ہے۔ دنیا کی ترقی و کامیابی کا راز صرف تعلیم میں ہی مضمر ہے۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے۔ اسکولوں میں بنیادی تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، سائنسی تعلیم، معاشی تعلیم، وکالت وغیرہ جیسی تعلیم حاصل کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ جدید علوم کے ساتھ ساتھ نِت نئے تجربات کرکے دنیا کامیابی کو اپنا مقدر بنا رہی ہے۔ تعلیم کی وجہ سے آج لوگوں کی پہچان ہے۔ یہ وہ بنیادی کنجی ہے جس کی وجہ سے انسان نے بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو پاتا ہے اور ہم بڑی آفتوں کا سامنا کر پاتے ہیں۔ ایسے میں اب ایک بار پھر سے اسکولوں کا کھلنا ملک کے مستقبل کے لئے ضروری ہے۔
(چرخہ فیچرس)