سنیچر کو مشتبہ جنگجووں نے 29 سالہ پولیس اہلکار اور اس کے 21 سالہ برادر اصغر پر گولیاں چلائیں ۔ بڑا بھائی موقعے پر ہی ہلاک جبکہ چھوٹا بھائی شدید زخمی ہوا ۔ چھوٹا بھائی بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا ۔ ان ہلاکتوں سے پورے علاقے بلکہ سارے کشمیر میں غم و الم کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ جب لاشیں ان کے آبائی گھر پہنچادی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا ۔ دونوں نوجوان بھائیوں کا اکٹھے جنازہ ادا کیا گیا اور دونوں کو ایک ساتھ قبر میں اتارا گیا ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کیا حالت ہوگی ۔ پورے خاندان کے ساتھ وہاں موجود دوسرے لوگوں کو سینہ کوبی کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ ہلاک کئے گئے بھائیوں کی ماں نے روتے ہوئے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ۔ وہ اس خواہش کا اظہار کررہی تھی کہ اس کو بھی اپنے بیٹوں کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔ اس کا کہنا تھا کہ جب اس کے بے گناہ بیٹوں کو مارا گیا تو اس کو بھی ان ہی کے ساتھ ہلاک کیا جانا تھا ۔ مہلوک بھائیوں کی بہن نے اس وقت اپنے کپڑے پھاڑ دئے جب چلاکر کہہ رہی تھی کہ ان سے ان کے دو گردے نکال کر لئے گئے ۔ اب وہ کیسے زندہ رہیں گے ۔ کشمیرکے مخصوص طرز پر ماتم کرتے ہوئے وہاں موجود عورتوں نے غم انگیز ماحول پیدا کیا تھا ۔ اس وجہ سے مردوں کی آنکھیں بھی نم نظر آرہی تھیں ۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اس واردات پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ سیاسی حلقوں نے مہلوکین کے پسماند گان سے تعزیت کرتے ہوئے اسے افسوسناک حرکت قرار دیا ۔ پولیس سربراہ نے اپنے کئی ساتھیوں سمیت مہلوکین کے گھر جاکر وہاں تعزیت کی ۔ تعزیت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔
بڈگام میں دو بھائیوں کی ہلاکت پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ نظر آتا ہے ۔ اس سے پہلے رواں ماہ کے شروع میں عسکریت پسندوں نے کولگام میں پنچایت ممبر کو ہلاک کیا ۔ اس کے بعد ایک اور پنچایت ممبر کو کھریو علاقے میں مارا گیا ۔ صرف دو دن بعد ایک اور عوامی نمائندے کو کولگام میں گولیاں مار کر ابدی نیند سلادیا گیا ۔ اس دوران چھٹی پر گھر آئے ایک سی آر پی اہلکار کے علاوہ ایک فوجی جوان کو بھی اسی ماہ ہلاک کیا گیا ۔ اب تازہ واردات بڈگام کے سویہ بوگ علاقے میں پیش آئی ۔ ان ہلاکتوں سے صورتحال پر کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ان ہلاکتوں سے سخت مایوسی پھیلتی نظر آرہی ہے ۔ عوام بڑی بے بسی سے ان ہلاکتوں کو دیکھتے رہتے ہیں ۔ ایک طرف یہ بات بڑی اہم ہے کہ حفاظتی حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ جنگجوسرگرمیوں پر قابو پایا گیا ہے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ جنگجووں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے ۔ جنگجووں کے اعانت کاروں کو بڑی تعداد میں دھر لیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی عسکری واردات میں ملوث شخص کو فوری طور گرفتار کیا جاتا ہے ۔ ملی ٹنسی سے جڑنے والوں کی رفتار بھی ماند پڑ گئی ہے ۔ اس کے باوجود ٹارگٹ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ جنگجو جہاں بھی چاہتے ہیں اپنے مظلوب سویلین شہری کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جنگجووں نے حفاظتی دستوں کے بجائے سویلین شہریوں کو ٹارگٹ بنانے کی پالیسی بنائی ہوئی ہے ۔ اس سے عوام سخت پریشان نظر آتے ہیں ۔ دوبھائیوں کی ایک ساتھ ہلاکت نے مایوسی میں اضافہ کیا ہے ۔ اس طرح کی واردات کا پیش آنا ایک المیہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ایسی ہلاکتوں کے ہر موقعے پر وضاحت کی جاتی رہی ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے اچھے اور امیر گھرانوں کے بیٹے بھی پولیس میں بھرتی ہورہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ فوج بھی جہاں بھرتی کے لئے کیمپ لگاتی ہے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوکر نوکری حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں ۔ ایک زمانے میں یہاں صورتحال یہ تھی کہ نوجوان فوجی بھرتی کا خیال بھی نہیں کرتے تھے ۔ ملی ٹنسی شروع ہونے سے پہلے ایسا سوچا بھی نہیں جاتا تھا کہ کوئی نوجوان فوج میں جاکر نوکری کرے گا ۔ ایک تو نوجوان ایسی محنت کے عادی نہ تھے ۔ دوسرا گھر سے باہر رہ کر نوکری کا یہاں تصور ہی نہ تھا ۔ آج فوج میں چپراسی یا خاکروب کی نوکری بھی ملی تو نوجوان اس پر بھی دوڑ پڑتے ہیں ۔ اسی طرح ایس پی او کی نوکری محض بے کاری اور بے روزگاری کی وجہ سے کی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہلاکتوں پر لوگ مایوسی اور ماتم کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایسی ہلاکتوں کے بڑے دوررس نتائج ہوتے ہیں ۔ اس کا خیال کرنا بہت ضروری ہے ۔