
پختہ اور کشادہ سڑکیں جہاں ایک طرف قیمتی جان و مال کی حفاظت کی ضامن ہوا کرتی ہیں۔ وہیں دوسری طرف یہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔ مرکزی زیر اہتمام جموں و کشمیر میں ہر سال بجٹ میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے جہاں ایک خطیر رقم کو منظوری دی جاتی ہے وہیں اس رقم کا ایک بہت بڑا حصہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ 2023۔24 کے بجٹ میں جموں و کشمیر کے لیے کل 118,500کروڑ کی رقم کو منظوری ملی اور اس میں سے 4062.87 کروڑ کی رقم سڑکوں کی تعمیر، توسیع و مرمت کے لئے مخصوص رکھی گئی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ رقومات خرچ کرنے کے باوجود بھی ہندوستان کا تاج اور دھرتی کی جنت کہی جانے والی جموں و کشمیر کی سڑکوں کی حالت آئے روز بد سے بدترین ہوتی ہوئی نظر کیوں آ رہی ہے؟، شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جس دن دل کو دہلانے اور کلیجے کو چیر دینے والے دلدوز سڑک حادثات ہماری آنکھوں کے سامنے نہ آتے ہوں۔ وادی کشمیر ہو یا لداخ، خطء چناب ہو یا پھر خطء پیر پنجال، ہر سو آئے دن سڑکوں پر موت کا رقص دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے نہ صرف قیمتی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے بلکہ ہر طرح کی ترقی کی رفتار تھم کے رہ گئی ہے۔بات اگر کشمیر کی ہی کی جائے تو زمینی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کی’شاہ رگ‘ کی طرف جانے والی شاہراہ یعنی جموں سرینگر شاہراہ آج تک صرف اور صرف نام کی شاہراہ ہے، معمولی سی موسمیاتی تبدیلی آنے پر یہ برائے نام شاہراہ کئی کئی روز کے لیے ٹھپ ہو کے رہ جاتی ہے اور اس سے نہ صرف زائرین ٹنل کے آر پار کئی کئی دنوں تک درماندہ ہو کے رہ جاتے ہیں بلکہ مال بردار گاڑیوں کو بھی کئی کئی دنوں کے لیے روک دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک مال بردار گاڑی کے ڈراؤربان محمد اقبام عمر 40، سڑک کی خستہ حالی کے پیشِ نظر آ رہی دشواریوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ”کئی بار ہماری گاڑیوں میں تازہ مال (پھل اور سبزیاں) وغیرہ ہوتی ہیں،لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے کئی جگہ ہمیں روک دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ تازہ سامان خراب ہو جاتا ہے اور اس کا خمیازہ ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے کرائے کی رقم سے ہی خراب شدہ سامان کے نقصان کی بھرپائی کرنی پڑتی ہے۔“ گوہر نامی ایک اور شخص جس کی عمر 23سال ہے، نے جموں سرینگر شاہراہ کو برائے نام شاہراہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ”ایک طرف ہماری سرکار کشمیر کی ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، لیکن ان کھوکھلے دعووں کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب جموں سے سرینگر اور سرینگر سے جموں آنے جانے میں مسافروں، مریضوں، طلبا اور مال بردار گاڑیوں کو درجنوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بہت سے مسافر اور مال بردار گاڑیوں کو آئے روز پیش آ رہے حادثات میں کتنی ہی قیمتی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر صیح معنوں میں مرکزی سرکار کو کشمیر کی ترقی کی فکر ہوتی تو آج تک جموں سرینگر سڑک کی حالت ہی کچھ اور ہوتی۔“ جموں سرینگر شاہراہ کی صور تحال کے حوالے سے جب سرینگر کے ایک اور سماجی کارکن منظور احمد سے بات کی تو انہوں نے بھی سڑک کی خراب حالت پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”ایک طرف مرکزی سرکار نے دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے وقت یہ کہا تھا کہ یہ جموں و کشمیر کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں اوراس کی منسوخی کے بعد ہم ترقی کے سارے راستے کشمیر کی طرف موڑ دیں گے۔ لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ اسکی منسوخی کے تین سال گزر جانے کے بعد بھی باقی ترقی تو دور کی بات،کشمیر کو ہندوستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ جوڑنے والی واحد شاہراہ، (جموں سرینگر قومی شاہراہ) اس قدر خستہ حالی اور عدم توجہی کا شکار ہے کہ ہر روز یہاں موت کا رقص دیکھنے کو ملتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان قیمتی جانوں کا زیاں حکومت کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتاہے۔ اب بات اگر خطہ چناب اور خطہ پیر پنجال کی کریں تو یہاں کی سڑکیں بھی حکومت کی نا اہلی اور عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔“
جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان دونوں خطوں میں زیادہ تر پہاڑی علاقے ہی پائے جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ یہاں کی خراب اور خستہ حال سڑکیں اکثر و بیشتر دلدوز حادثات کا سبب بنتی ہیں۔ خطہء پیر پنجال اور خاص کر راجوری پونچھ اضلاع کی بات کی جائے تو یہ دونوں اضلاع جہاں ترقی کے ہر میدان میں پیچھے ہیں وہیں یہاں کی سڑکیں بھی نا قابلِ آمدورفت ہیں۔ اس حوالے سے جب پیر پنجال عوامی ڈویلپمنٹ فرنٹ کے چئرمین مولوی فرید ملک سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ”خطہء پیر پنجال قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہے، یہاں کے بہت سارے مقامات مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہاں کی سڑکوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ لوگ چاہتے ہوئے بھی یہاں آنے سے کتراتے ہیں، اگر حکومت یہاں کی سڑکوں کی تعمیر، توسیع اور مرمت کی طرف خصوصی توجہ دے تو نہ صرف سیاحوں کی فراوانی یہاں دیکھنے کو ملے گی بلکہ اس سے یہاں کے لوگوں کی ترقی کے لئے ہر طرح کے راستے ہموار ہوں گے۔“ یہاں یہ بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ محض بجٹ میں رقم مخصوص رکھنے سے یہاں کی خستہ حال سڑکوں کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی بلکہ زمینی سطح پر کوئی مثبت حکمتِ عملی لانے کی سخت ضرورت ہے۔ خاص کر محکمہ تعمیرات عامہ اور دیگر محکمہ جات جن کے ہاتھ میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے کام کاج کی بھاگ دوڑ تھمائی جائے، ان محکمہ جات کے عملہ کو فعال اور جوابدہ بنایا جائے اور عوامی سطح پر بھی مثبت تبدیلی کے لئے بیداری لائی جائے۔ نیز ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے۔تبھی جا کر یہاں پر رونما ہو رہے حادثات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ ان خستہ حال سڑکوں پراسی طرح موت کا رقص یوں ہی دیکھنے کو ملتا رہے گا۔(چرخہ فیچرس)
