رواں ماہ کی 23 تاریخ کو سرینگر میں واقع باغ گل لالہ سیاحوں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سال بڑی تعداد میں سیاح باغ کو دیکھنے کے لئے آئیں گے ۔ یہ باغ ایشیا کا اس نوعیت کا سب سے بڑا اور دلکش باغ ہے ۔ اس کا محل وقوع انتہائی دلکش اور دیدہ زیب ہے ۔ کشمیر کی مشہور جھیل ڈل کے کنارے واقع یہ باغ پچھلے کئی سالوں سے سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنا ہواہے ۔ ناموافق حالات کے باوجود باغ گل لالہ دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح یہاں وارد ہوئے ۔ سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ اس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں سیلانی یہاں آئیں گے ۔ اس وجہ سے سیاحت کے شعبے کو دوبارہ فروغ ملنے کا اندازہ لگایا جارہاہے ۔
کشمیر میں سیاحتی شعبہ کئی سالوں سے مفلوج رہاہے ۔ اس دوران کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں ۔ کورونا نے جہاں زندگی کے بیشتر شعبوں کو متاثر کرکے بحران سے دوچار کیا وہاں سیاحتی سرگرمیاں پوری طرح سے معطل ہوگئیں ۔ سخت احتیاطی تدابیر کے بعد اب کئی ان ممالک نے جہاں کورونا وبا پر قابو پایا گیا ایک بار پھر سیاحتی سرگرمیوں کو شروع کیا جارہاہے ۔ خلیجی ممالک نے کورونا پابندیاں نرم کرتے ہوئے بہت سے ممالک کے شہریوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت دی ہے ۔ اگرچہ ابھی کئی طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں ۔ تاہم یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ کشمیر میں کورونا مریضوں کی تعدا بتدریج کم ہورہی ہے ۔ بلکہ اب ایسے مریضوں کی شناخت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دو ماہ پہلے ایسے مریضوں کی یومی تعداد ایک دو ہزار کے درمیان رہتی تھی ۔ اب یہ تعداد گٹھ کر ایک دو درجن کے آس پاس رہتی ہے ۔ طبی حلقے زور دے رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کو ترک نہ کیا جائے ۔ ماسک پہننے اور آپس میں دوری بنائے رکھنے کی ہدایات اب بھی دی جارہی ہیں ۔ ان مشوروں کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ صورتحال میں کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے ۔ حالات اس قدر سنگین نہیں ہیں جیسے پہلے تھے ۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ کم عمر بچوں کے لئے ٹیکہ کاری مم کا آغاز کیا گیا ہے ۔ پہلے ویکسین صرف بڑے بوڑھوں کے لئے بنائے گئے ۔ اب مبینہ طور بچوں کو بھی کورونا مخالف ٹیکے دئے جارہے ہیں ۔اس سے کورونا کو قابو میں کرنے کے لئے مزید حوصلہ ملے گا ۔ یقینی طور ان اقدامات سے کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔ اس دوران ٹولپ گارڈن کھولنے سے سیاحوں کو یہاں آنے پر راغب کیا جاسکتا ہے ۔ ٹولپ گارڈن ایک واحد اکائی نہیں ۔ بلکہ جو لوگ اس باغ کو دیکھنے کشمیر آتے ہیں وہ پھر یہاں دوسرے سیاحتی مقامات کو دیکھنے بھی جاتے ہیں ۔ اس سے شعبہ سیاحت سے جڑے لوگوں کو کافی فائدہ ملتا ہے ۔ دوتین دہائیاں پہلے یہ شعبہ کشمیر کا سب سے مضبوط اور فائدہ مند شعبہ تھا ۔ نوے کی دہائی میں زوال کا شکار ہونے لگا اور بہت جلد ایسی تمام سرگرمیاں ٹھپ پڑگئیں ۔ یہاں تک کہ سیاحوں نے کشمیر آنا چھوڑ دیا ۔ کئی بار کوشش کی گئی کہ ان سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کیا جاسکے ۔ لیکن کوئی خاص کامیابی نہ ملی ۔ اب ایک بار پھر اس طرف توجہ دی جارہی ہے ۔ شروعات ٹولپ گارڈن سے کی جارہی ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ گل لالہ کے پھول کی طبعی عمر بہت کم ہے ۔ ایک دو ہفتوں کے بعد ہی باغ کی رونق ماند پڑ جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی ہے ۔ کئی بار حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ باغ کی رونق بحال رکھنے کے لئے اس میں دوسری اقسام کے پھول بوئے جائیں ۔ اس سے باغ کی رونق برقرار رہ سکتی ہے ۔ ابھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت سامنے نہ آئی ۔ سیاحتی شعبے کو بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاحوں کی دلچسپی کے سامان پیدا کئے جائیں ۔ جدید سہولیات بم پہنچانا لازمی ہے ۔ لوگ محض قدرتی خوبصورتی کی غرض سے یہاں نہیں آئیں گے ۔ دنیا کے بہت سے خطے ہیں جہاں سیاح جاکر قدرتی حسن کا نظارہ کرتے ہیں ۔
کشمیر واقعی ان سے بہتر ہے ۔ لیکن دوسرے علاقوں میں سیاحوں کو جو سہولیات اور دلچسپی کے سامان میسر ہیں کشمیر میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔ جب تک سیاحوں کو اس طرح کی سہولیات فراہم نہ کی جائیں گی وہ یہاں آنا پسند نہیں کریں گے ۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ یہاں کی قدرتی خوبصورتی آہستہ آہستہ معدوم ہوجارہی ہے ۔ لوگ اس کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اس کا استحصال کرتے ہیں ۔ ایسی چیزیں سیاحت کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں ۔
