منگلوار کو حد بندی کمیشن کے ارکان نے سرینگر میں کئی وفود سے ملاقات کی ۔ اس سے پہلے جموں میں اسی طرح کی ملاقاتیں ہوئیں ۔ حد بندی کمیشن نے پہلے ہی عندیہ دیا تھا کہ اپنے کام کے حوالے سے رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے مختلف مقامات پر عوامی دربار منعقد کئے جائیں گے ۔ جہاںتجاویز پیش کی جاسکتی ہیں ۔ تازہ کوششیں اسی تناظر میں ہورہی ہیں ۔ ان تجاویز کو کمیشن کہاں تک قبول کرے گا یہ حتمی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔ اس سے پہلے کمیشن کی طرف سے غیر حتمی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ۔ کمیشن کی اس رپورٹ سے سیاسی حلقوں میں سخت اتھل پتھل پائی گئی ۔ تاہم کمیشن نے اشارہ دیا کہ حتمی رپورٹ حکومت کو سونپنے سے پہلے عوامی اور سیاسی حلقوں کو اپنی ترامیم اور تجاویز پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ کمیشن نے پہلے جموں اور پھر سرینگر کے ایس کے سی سی میں دلچسپی رکھنے والے کئی حلقوں اور وفود سے ملاقات کرکے ان سے تجاویز طلب کیں ۔ کہا جاتا ہے کہ درجنوں وفود نے کمیشن ممبران کو اپنے خیالات سے باخبر کیا اور بہت سی تجاویز پیش کیں ۔ کمیشن کی طرف سے ان تجاویز کے حوالے سے قبول یا رد کئے جانے کے بارے میں کچھ کہا نہیں گیا ۔
حد بندی کمیشن نے پہلے جو غیر حتمی رپورٹ منظر عام پر لائی کشمیر میں گپکار الائنس میں شامل پارٹیوں کے علاوہ دوسرے کئی سیاسی حلقوں نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ۔ الائنس کے دونوں سربراہوں نے اس رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اسی طرح پی سی کے چیرمیں سجاد لون نے رپورٹ کو غیر منصفانہ قرار دیا ۔ بی جے پی کی طرف سے جموں کے علاوہ سرینگر میں حد بندی کمیشن کے کام کو سراہا ۔ اس کے علاوہ جموں کے کچھ وفود نے کمیشن کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ بعض علاقوں نے اسے ناقابل قبول قرار دیا ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سرکاری کمیشن کی طرف سے عوام اور سیاسی حلقوں کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا ۔ ماضی میں جب بھی کوئی کمیشن بنتا تھا تو بہت کم ایسا دیکھا گیا کہ کمیشن نے کھلے عام عوام کی رائے طلب کی ۔ اسی طرح کی کمیشن زیادہ تر اپنا کام بند کمروں میں انجام دیتے ہیں ۔ عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کمیشن کے ارکان کا حلی کیسا ہے اور ان کا حدود اربعہ کیا ہے ۔ ایسے کمیشن تک رسائی حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے بجائے حد بندی کمیشن نے وسیع پیمانے پر لوگوں سے ملاقات کرکے ان کی رائے حاصل کی ۔ اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کس کی رائے قبول کی جائے گی اور کون سی رائے ردی کی ٹوکری میں ڈالی جائے گی ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے کمیشن نے جموں کشمیر کے عوامی نمائندوں سے اس بارے میں صلاح مشورہ کیا ۔ بعد میں نیشنل کانفرنس کے پارلیمنٹ ممبران نے الزام لگایا گیا کہ ملاقات کے دوران ان سے حاصل کی گئی آرا کو نظر انداز کیا گیا ۔ کمیشن نے جو غیر حتمی رپورٹ سامنے لائی نیشنل کانفرنس کو حد بندی کی نئی تجاویز ہر گز قبول نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹی کے ووٹ بینک پر اس سے کوئی اثر پڑنے کا کوئی بڑا خطرہ نہیں ۔ اس کے باوجود کئی حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس سے حکمران پارٹی کو فائدہ ملے گا ۔ یہ کو ئی عجیب بات نہیں کہ کمیشن حکومت کے مفادات کو مد نظر رکھے گا ۔ یہ قدرتی بات ہے کہ حکومت کی طرف سے قائم کیا گیا کمیشن حکومت کی بات بھی سنے گا ۔ تاہم اس دوران دوسرے حلقوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی ۔ یہ حلقے زور دے رہے ہیں کہ کمیشن حتمی رپورٹ ان کی خواہش کے مطابق تیار کرے ۔ یہ صحیح سوچ نہیں ۔ آج تک کسی بھی کمیشن نے ایسا نہیں کیا ۔ انگریزوں کے زمانے میں جتنے بھی کمیشن لندن سے تشکیل دے کر ہندوستان بھیجے گئے سب حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے بھیجے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر کمیشن واپس بھیج دئے گئے اور ہندوستان کے کسی رہنما نے ان سے ملاقات نہیں کی ۔ بعد میں ملک آزاد ہوا تو بہت سے نئے کمیشن بنائے گئے ۔ یہاں تک کہ کچھ معاملات کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی ارکان پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ ہر کمیشن اور کمیٹی نے اپنے وقت کی حکومت کے مفادات کا تحفظ کیا ۔ آج حد بندی کمیشن ایسا کرے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ بہت سے لوگ اندازہ لگارہے ہیں کہ کمیشن کی طرف سے پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی تشکیل نو کے دوران بڑے پیمانے پر ردو بدل ہوگا ۔ اس وجہ سے روایتی سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے ۔ اس وجہ سے سیاسی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایسا ہوانا کوئی غیرممکن بات نہیں ۔