حکومت کا دعویٰ ہے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران جموں کشمیر میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے ۔ اس حوالے سے اعداد و شمار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ایک سنہری دور ہے جس کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا ۔ پریس کے نام جاری بیان میں کہا گیا کہ پچھلے تین سالوں کے دوران یہاں 50,000 سے زیادہ ترقیاتی پروجیکٹ ممکمل کئے گئے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ تین سال پہلے 2018 میں بنائے گئے پروجیکٹوں کے مقابلے میں یہ پانچ گنا زیادہ ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تین سال ترقی کے حوالے سے یاد گار زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ 5اگست کو جب کشمیر کے لئے مخصوص آئینی دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا اس وقت حکومت کا کہنا تھا کہ مذکورہ دفعہ کشمیر کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اب باور کرایا جارہا ہے کہ اس دفعہ کے خاتمے سے کشمیر کو مالی اور تجارتی میدانوں میں کافی ترقی حاصل ہوئی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار نے اس خطے کو ترقی دینے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
پچھلے دو سالوں کے دوران پوری دنیا میں کووڈ وبائی صورتحال کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کو معطل کیا گیا ۔ ملک کے بیشتر حصوں سمیت کشمیر پر بھی کووڈ کا سخت دبائو رہا ۔ بندشوں اور احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کشمیر میں زندگی کی سرگرمیاں ٹھپ پڑی رہیں ۔ زندگی کے مختلف شعبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے بھی اس دوران حکومتی ترقی سرگرمیوں کو معطل رکھا ۔ تاہم جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی کے بعض پروجیکٹوں پر کام جاری رکھا گیا ۔ اس دوران حکومت کی کوشش رہی کہ احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھ کر لوگوں کی آسائشوں کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان تین سالوں کے دوران جتنا پروجیکٹ ورک کیا گیا اس سے پہلے کبھی ایسا ممکن نہیں ہوا ہے ۔ تاہم کئی حلقوں کا الزام ہے کہ زمینی سطح پر عوام کو زیادہ سہولیات میسر نہیں آئیں ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے سڑکوں ، پینے کے پانی کی سپلائی اور اسی طرح بہت سی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے کافی رقوم مہیا رکھیں ۔ بہت سے لوگوں کا آج بھی کہنا ہے کہ پیسوں کی حکومت کے پاس کوئی کمی نہیں ہے ۔ وافر مقدار میں رقوم فراہم کرنے کے بعد ترقی کے مختلف پروجیکٹوں کو تکمیل تک پہنچا یا گیا ۔ تاہم یہ بات کسی طور چھپائی نہیں جاسکتی کہ تعمیر وترقی کے ان کاموں کو عوام کے لئے زیادہ فائدہ مند نہیں بنایا جاسکا ۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی سطح پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے ۔ عوام آج بھی کافی مشکلات سے دوچار ہیں ۔ بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی کا لوگوں کو جو سامنا ہے اس وجہ سے سخت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ مارکیٹ پر کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ سرکار نے کئی چیزوں خاص کر بجلی فیس اور پانی کی فیس میں اضافہ کرکے لوگوں کی مشکلات بڑھائی ہیں۔ ایک طرف لوگوں کی آمدنی میں کافی کمی آئی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ کہا جاتا ہے کہ قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے ٹیکس کی وصولیابی میں بھی اضافہ ہو ا۔ اس دوران دیکھا گیا کہ بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے ۔ ادھر حکومت نوکریاں فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے ۔ لیکن پڑھے لکھے نوجوانوں کی جتنی تعداد ہے اس کا حساب لگاکر نوکریاں فراہم کرنے کی رفتار بہت کم ہے ۔ ہر سال جتنی تعداد میں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نوجوان ڈگریاں حاصل کرکے نکلتے ہیں نوکریاں اس حساب سے فراہم نہیں ہوتی ہیں ۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی ابھی اتنا پھیلا نہیں ہے جو ایسے نوجوانوں کو اپنے اندر سما سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ ترقیاتی پروجیکٹوں کے حوالے سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں ۔ ایسے نوجوانوں اور ان کے گھر والوں کو محفوظ آمدنی کے ذرایع فراہم آنے کی فکر ہے ۔ ایسا صرف سرکاری سیکٹر میں ممکن ہے ۔ لیکن سرکاری سیکٹر کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ ہر آدمی کو نوکری فراہم کرسکے ۔ اس کا متبادل تلاش کرنا ضروری ہے ۔ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں بنیں کسی نے اس طرف توج دینے کی کوشش نہیں ۔ اس کا خمیازہ موجودہ نسل کو اٹھانا پڑ رہاہے ۔نوجوان روزگار نہ ہو نے کی وجہ سے ذہنی تنائو کا شکار ہیں ۔ تنائو کم کرنے کے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں ۔ بلکہ خود کشی تک پہنچ چکے ہیں ۔ خود کشی کی رفتار بڑھنے کی بڑی وجہ نوجوانوں کا بے روزگار ہونا بتایا جاتا ہے ۔ اس طرح کے واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زمینی سطح پر لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے ۔ حکومت نے بڑی تعداد میں پروجیکٹ تعمیر کئے ۔ تین سالوں کے قلیل عرصے میں یہ بہت بڑی پیش رفت ہے ۔ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔