یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ جموں کشمیر میں بھی شادی شدہ جوڑے بیٹی کے بجائے بیٹے کو پسند کرتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ خواتین بھی بیٹی کی پیدائش کو پسند نہیں کرتیں ۔ خود بیٹی ہوکر عورتیں بیٹی پیدا ہونے کے بجائے بیٹے کو ہی زیادہ پسند کرتی ہیں ۔ حال ہی میں سامنے لائے گئے سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف سات فیصد مرد لڑکی کی پیدائش کو نیک شگون قرار دے کر اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس کے بجائے زیادہ تر مرد بیٹی کی پیدائش پر رنجیدہ ہوکر سر جھکادیتے ہیں ۔ ان کے چہروں پر بیٹی کی پیدائش سے خوشی کے بجائے پژمردگی پھیل جاتی ہے ۔ ملکی سطح پر کی گئی اس سروے میں جموں کشمیر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تیس فیصد مرد اور پچیس فیصد خواتین چاہتی ہیں کہ ان کے ہاں بیٹی کے بجائے بیٹا پیدا ہوجائے ۔ بیٹے کی پیدائش کے لئے مردوں سے زیادہ خواتین پیروں فقیروں اور جادو ٹوٹکے کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشتر لوگ بیٹی کے بجائے بیٹے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اب تو یہ رجحان بھی بڑھتا جارہاہے کہ زیادہ بچوں کے بجائے خاندان میں صرف ایک بچہ ہو ۔ بیٹا پیدا ہوجائے تو مزید بچوں کی خواہش نہیں کی جاتی ہے ۔ اس غرض سے لوگ بیٹے کی پیدائش کے بعد مزید بچوں کی پیدائش روک دیتے ہیں ۔ اگرچہ ابھی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو دو یا تین بچوں کی خواہش رکھتے ہیں ۔ تاہم کچھ خاندان یا خاندان میں کچھ فرد ایسے ہیں جو صرف ایک بچے کی پیدائش پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ بیٹی کی پیدائش کو معیوب خیال کرکے ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہی پیدا ہوجائے ۔
پچھلے کئی سالوں سے حکومت بڑے پیمانے پر مہم چلارہی ہے تاکہ لوگوں کو سمجھا یا جائے کہ بیٹی بھی ویسی ہی اہم ہے جیسا کہ بیٹے کو خیال کیا جاتا ہے ۔ بیٹی بچائو اور بیٹی پڑھائو مم کے تحت جگہ جگہ سیمنار کئے گئے اور اشتہاری مہم میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بیٹی کی پیدائش کو نہ روکا جائے ۔ لیکن سروے سے معلوم ہوا ہے کہ لوگ اس مہم سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے اور بیٹی کی پیدائش سے خوف زدہ ہیں ۔ یہ خوف بلا سبب نہیں بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں ۔ معاشرے میں لڑکیوں کے تعلق سے جو درندگی پائی جاتی ہے اس سے خوف زدہ ہوکر والدین لڑکی کی پیدائش کو پسند نہیں کرتے ۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران لڑکیوں کے حوالے سے رویے میں حد درج تفاوت نظر آرہی ہے ۔ آئے روز ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جو والدین کے لئے برداشت کرنا ممکن نہیں ۔ پہلے تو صرف ریپ کے واقعات پیش آتے تھے ۔ اب لڑکیوں پر ایسڈ پھینکنے اور بہووں کو آگ لگانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔ ان واقعات کو دیکھ کر یا سن کر کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوجائے اور کل ایسا ہی واقعہ اس کے ساتھ پیش آئے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر واقعات ان لڑکیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جو شرم وحیا کا پیکر خیال کی جاتی ہیں ۔ اپنی اور اپنے والدین کی عزت بچانے والی لڑکیوں کو سماج پسند کرتا ہے نہ شادی کے بعد انہیں سسرال میں سکون میسر آتا ہے ۔ بلکہ ان پر زیادہ ظلم ڈھایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے ۔ یہ آج کے خیالات نہیں بلکہ پرانے زمانے سے ہی بیٹوں کی پیدائش کو اہمیت دی جاتی رہی ۔ جنگجو قوموں کے اندر بیٹے کی پیدائش کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی ۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی وجہ بھی یہی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کئے جائیں ۔ خاص کر بیٹے پیدا ہوکر فوجی قوت میں اضافہ کیا جائے ۔ قبیلوں کے اندر سرداری ان ہی گھروں میں قائم رہ پاتی تھی جہاں پہلا بچہ بیٹا ہو ۔ بیٹا نہ ہو تو بہت کم سرداری اک منصب لڑکیوں کی طرف منتقل ہوتا تھا ۔ بعد میں سرکاری نوکری کے لئے بیٹے کی پیدائش ضروری سمجھی جاتی تھی ۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو پڑھانے اور سرکاری نوکری کرانے کا کوئی خیال بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔ لڑکوں کے بجائے لڑکیاں تعلیم کے میدان میں زیادہ فعال ثابت ہورہی ہیں ۔ امتحانات میں لڑکیاں زیادہ بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہیں اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کررہی ہیں ۔ اس کے باوجود والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹی کے بجائے بیٹے پیدا ہوجائے ۔ سرکار لڑکوں کو بجائے لڑکیوں کے لئے زیادہ اسکالر شپ دیتی ہے ۔ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کی شادی بیاہ کے لئے امداد فراہم کرتی ہے ۔ ان اقدامات سے لوگوں کی سوچ بدل نہیں سکی ہے ۔ لوگ اب بھی بیٹے کو پسند اور بیٹی کو ناپسند کرتے ہیں ۔