زرعی شعبے کو ترقی دینے پر زور دیتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر نے سمارٹ ٹیکنالوجی اپنانے کے لئے کہا ۔ اس حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس میں بولتے ہوئے انہوں نے زراعت کو مستقبل کی بڑی ضرورت قرار دیا ۔ گورنر نے مشورہ دیا کہ زراعت کو محفوظ بنانے اور اس کی ترقی ممکن بنانے کے لئے سمارٹ ٹیکنالوجی کو اپنانا ضروری ہے ۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ انتظامیہ زرعی شعبے وک ترقی دینے کے حوالے سے فکر مند ہے ۔ پچھلے کئی سالوں سے دیکھا گیا کہ زراعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے بجائے اس شعبے وک پس پشت ڈالا جارہاہے ۔ ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرتے ہوئے زرعی پیداوار کو بڑھانا ممکن نہیں ہے ۔ نصف صدی پہلے پیش گوئی کی گئی تھی کہ بڑھتی آبادی کے لئے آنے والے زمانے میں زرعی پیداوار کی بڑی کمی ہوگی ۔ اس وجہ سے فاقہ کشی بڑھنے اور آبادی کے بڑے حصے کا فوت ہونا یقینی قرار دیا گیا تھا ۔ لیکن اس دوران کیمیاوی کھادوں اور جدید آلات کے استعمال سے فصل کی پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ ایسے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے اور زرعی شعبے کو کافی سہارا مل گیا ۔ پچھلے کچھ سالوں سے کہا جارہاہے کہ مصنوعی طریقے استعمال کرنے کے بجائے فصلوں کی پیداوار کو قدرتی ذرایع کے استعمال سے بڑھایا جائے ۔ ماہرین زور دے رہے ہیں کہ مصنوعی کھادوں کے ساتھ ساتھ قدرتی ذرایع کا سہارا لے کر زراعت کے شعبے کو محفوظ بانیا جائے ۔ یورپ نے تمام تر مشینی ذرایع استعمال کرنے کے باوجود قدرتی وسائل وک نظر انداز نہیں کیا ۔ اس طرح سے وہاں کی زرعی زمین کو محفوظ کردیا گیا ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لئے جو سرکاری ادارے قائم ہیں وہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی عملی کام انجام نہیں دیتے ۔ زرعی شعبے خاص کر چھوٹے کسانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ان کی واقفیت صفر کے برابر ہے ۔ یہ ادارے زراعت کی ترقی کے نام پر سالانہ کئی ہزار کروڑ خرچ کرتے ہیں ۔ سرمایہ کا بڑا حصہ فرضی تحقیقات پر ضایع ہوتا ہے ۔ بہ ظاہر تحقیقی کام کے لئے کئی سو افراد لگے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ لیکن پچھلی ایک صدی کے دوران ان کے ہاتھوں یا ان کی تحقیقات سے کسانوں کو ذرا سی بھی راحت میسر نہ آئی ۔ ایگریکلچر کا محکمہ ہو یا ایگریکلچر یونیورسٹی کسی سے بھی زرعی شعبے کو کوئی تحفظ حاصل نہ ہوا ۔ جموں کشمیر کے کسان آج بھی روایتی انداز میں زمینداری کا کام انجام دیتے ہیں ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس شعبے کے لئے تعینات سرکاری اہلکار فیلڈ میں کام کرنے کے بجائے بند کمروں میں بحث و مباحثے کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی نوکری کسانوں کی خدمت کے بجائے تنخواہ وصول کرنے کا ایک ذریع ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی رتی برابر کوئی اہمیت نہیں ۔ ایل جی نے جو مشورے زراعت کے شعبے وک ترقی دینے کے لئے دئے وہ بڑے اہم ہیں ۔ لیکن ان پر عمل ہونا بہت مشکل ہے ۔ سرکاری ادارے اور اہلکار ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ۔
جموں کشمیر میں زرعی شعبہ بڑی تیزی سے سکڑ رہاہے ۔ حکومت نے ایسی زمینوں پر رہائشی اور تجارتی ڈھانچے تعمیر کرنے کی کھلی اجازت دی ہے ۔ اس حوالے سے پابندی کے قانون کو ختم کرکے نئی پالیسی بنائی گئی ہے ۔ نئی پالیسی کا مقصد کسانوں کے لئے تجارتی راستہ کھولنا بتایا جاتا ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار یہاں آکر نجی شعبے وک فروغ دیں ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ بہت سے سرمایہ کاروں کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور زمین کی فراہمی کے حوالے سے تحفظات رہے ہیں ۔ ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے نئے قانون بنائے گئے ۔ ان قوانین سے کسانوں اور عام شہریوں کو کتنا فائدہ ملتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ تاہم زرعی پیداوار پر اس کے اثرات پڑنا یقینی ہے ۔ اس کے باوجود یہ بات ضرور ہے کہ زراعت انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ زندگی اسی وجہ سے قائم ہے ۔ جموں و کشمیر میں ہی نہیں بلک پورے ملک میں کسان زرعی پیداوار کو غیر منافع بخش کاروبار سمجھ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کام پر جتنا خرچ آتا ہے فصل اس قدر نہیں مل رہی ہے ۔ ادھر پچھلے کئی سالوں کے دوران فصلوں کی پیداوار گوکہ بڑھتی رہی ۔ لیکن خریدار ملنا مشکل ہورہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہہ ملک بھر کے کسان زراعت کے شعبے سے مایوس ہورہے ہیں ۔ کسانوں کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ ان کے لئے خرچ چکانا ناممکن بن رہاہے اور کسانوں کی خودکشی کے حادثات کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے ۔ اس کا براراست اثر زراعت کے شعبے پر پڑرہاہے ۔ زرعی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے لئے راحت رسانی کا کام انجام دینا ضروری ہے ۔ جب ہی کسانوں اور ان کی فصل وک محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔