جموں کشمیر میں کئی ہفتوں سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایسے واقعات میں غیر مسلم شہریوں کو نشانہ بناکر ان پر گولیاں چلائی گئیں ۔ ایسے واقعات کے خلاف بیشتر حلقوں نے افسوس اور غم وغصے کا اظہار کیا ۔ اگرچہ اس طرح کی ہلاتیں نوے سے لے کر دو ہزار تک ہوئی ہلاکتوں کے مقابلے میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ۔ لیکن یہ واقعات ایسے موقعے پر پیش آئے جب سیکورٹی حلقوں کا خیال تھا کہ ملی ٹنسی کو قریب قریب قابو میں کیا گیا ہے ۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ طمنچہ بردار ظاہر ہوکر ایسا خطرہ مول لینے کی ہمت کرسکتے ہیں ۔ کولگام میں دو ایسے واقعات پیش آئے جن سے پورے کشمیر میں خوف وہراس پھیل گیا ۔ غیر مسلم برادری نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وادی چھوڑ کر جانے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا اور سیکورٹی فراہم کرنے کی مانگ کی ۔ ان کے جذبات کو بلا وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تاہم اس دوران کئی سیاسی حلقوں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست کرنے کی کوشش کی ۔ کچھ حلقوں نے حکومت پر الزامات لگانے شروع کئے اور ثابت کیا جانے لگا کہ موجودہ سرکار سچویشن کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی ۔ مقامی سیاسی حلقوں نے اس کی آڑ میں بی جے پی سرکار کو گھیرنے کی کوشش کی ۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بیشتر عوامی حلقے ان واقعات کو سیاسی نظر کے بجائے انسانی المیے کے طور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ۔ تاہم سیاسی حلقوں نے ایک بار پھر اسے اپنے فائدے کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایل جی منوج سنہا کو دہلی طلب کرکے کئی سیکورٹی سربراہوں سے میٹنگ کرکے اس مسئلے پر مشورہ کیا ۔ میٹنگ میں مبینہ طور بہت جلد شروع ہونے والی امرناتھ یاترا کے حوالے سے بھی صلاح مشورہ کیا گیا ۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یاترا کو بغیر کسی خلل کے انجام پانے کے لئے سیکورٹی فورسز میں اضافہ کیا جارہاہے ۔ فورسز میں اضافے سے یقینی طور صورتحال کو قابو میں کرنے میں مدد ملے گی ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ہلاکتوں کو لے کر حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی بھی حلقے کو سیاست چمکانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔
ماضی میں جموں کشمیر میں ہلاکتوں کو لے کر بڑے پیمانے پر سیاست کی گئی ۔ بلکہہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے ان ہلاکتوں کو اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے سیاسی مینی فیسٹو بنادیا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایسی ہلاکتوں کو سلسلہ ختم نہیں ہوسکا ۔ اقتدار میں آنے اور دوسروں کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ایسی ہلاکتوں کا سہارا لیا گیا ۔ جھوٹے دعوے کئے گئے اور کبھی ہلاکتوں کی تعداد بڑھاچڑھا کر پیش کی گئی جبکہ بہت سے موقعوں پر پیش آئی ہلاکتوں کے وجود سے ہی انکار کیا گیا ۔ اس طرح کے بیانات نے عوام کو سخت مایوس کیا اور اندازہ لگایا گیا کہ کشمیر میں بہائے جانے والے خون ناحق کو لے کر بھی کئی حلقے سیاسی دکانیں چمکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی ہلاکتوں کو انسانی مسئلہ سمجھنے کے بجائے سیاسی مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو لے کر تمام سیاسی حلقے اپنی دکانیں چمکانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہلاکتیں عوامی سطح پر کوئی تبدیلی لانے کے بجائے سیاست کے کھاتے میں جاکر فراموش ہوتی ہیں ۔ پچھلے تیس پنتیس سالوں کے دوران عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے بہت سے واقعات پیش آئے ۔ انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں نے ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور لمبی لمبی رپورٹیں شایع کیں ۔ لیکن اندرون کشمیر ان واقعات کو لے کر انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ملی ٹنسی کے واقعات میں کمی آنے کے باوجود عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا ۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ ان ہلاکتوں کے خلاف کوئی متحدہ محاذ نہیں بن سکا اور ان کو روکنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی ۔ اس صورتحال کو حکومت کے دائرہ کار میں دے کر اس کے خلاف بیانات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ۔ اپوزیشن کی کوشش رہتی ہے کہ بس اسی مسئلے کو لے کر سیاست کی جائے ۔ حکومت بھی اپوزیشن سے پیچھے نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے مسائل اس وجہ سے نظر انداز ہوتے ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری ایسے دو مسائل ہیں جن کی وجہ سے عوامی حلقے سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔ ان مسائل کو لے کر کہیں بھی کوئی ہلچل دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ البتہ عام شہریوں کے خون کے سودا گر ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔ کشمیر میں حالیہ ہلاکتوں کو لے کر پورے ملک میں سیاست کی جارہی ہے ۔ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کے بجائے اس پر سیاست کا کھیل عروج پر ہے ۔
