دودن کی موسلا دھار بارش کے بعد پورے کشمیر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ۔ کئی علاقوں میں بستیوں کے اندر پانی بھر گیا اور لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا رہا ۔ اس دوران انتظامیہ نے دریائوں اور نالوں کے آس پاس رہنے والوں کو خبردار کیا کہ وہ صورتحال پر نظر رکھیں اور احتیاط سے کام لیں ۔ اسی طرح سرکاری مشنری کو متحرک کرکے عوام کی حفاظت کو ممکن بنانے کے لئے کہا گیا ۔ کئی جگہوں سے اطلاع ہے کہ بندھ ٹوٹ جانے سے پانی بستیوں کے اندر پہنچ گیا ۔ سرینگر کے بعض علاقوں کے اندر پانی بہہ کر آنے سے لوگوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا رہا ۔ مجموعی طور سخت بے چینی کا ماحول رہا ۔انتظامیہ کی طرف سے بر وقت کاروائی کرتے ہوئے سرکار مشنری کو متحرک کیا گیا ۔ کئی جگہوں پر کنٹرول روم قائم کئے گئے اور لوگوں کو مدد درکار ہونے کی صورتحال میں یہاں تعینات آفیسروں سے رابطہ قائم کرنے کے لئے کہا گیا ۔ اس دوران بدھ کو صبح سویرے اسکولوں کے اندر درس و تدریس کا کام معطل کرنے کے اعلان کیا گیا ۔ تاکہ جان و مال کی حفاظت کو ممکن بنایا جاسکے ۔ کئی اعلیٰ سطح کے آفیسروں کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ اس سے وہاں کے لوگوں کو کافی راحت ملی ۔
سیلابی صورتحال کا سامنا لوگوں کو پہلی بار نہیں کرنا پڑا ۔ اب سال میں کئی بار ایسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے ۔ گلوبل وارمنگ کے علاوہ موسم نے ایسا رخ اختیار کیا ہے کہ بادل آسمان پر چھاتے ہی ان کے پھٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ اس وجہ سے اچانک سیلاب ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورتحال کے اندر ضروری ہے کہ لوگ احتیاط سے کام لیں ۔ انتظامی اہلکاروں کا ہر جگہ پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ اس دوران سماجی کارکنوں اور مقامی عوامی کمیٹیاں اپنا رول ادا کرکے صورتحال کو قابو میں کرسکتی ہیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسی پیچیدہ صورتحال کے وقت عوام کی نظریں حکومت پر لگی ہوتی ہیں ۔ انہیں یہی امید ہوتی ہے کہ سرکاری اہلکار ان تک پہنچ کر انہیں ضروری امداد فراہم کریں گے ۔ لیکن ایسا ہونا ضروری ہے نہ ایسے ہر موقعے پر سرکاری امداد بہم ہوسکتی ہے ۔ تاہم کچھ امدادی ادارے کام انجام دے سکتے ہیں ۔ لیکن ایسے موقعوں پر عمومی طور یہی ہوتا ہے کہ رضاکار غائب ہوجاتے ہیں اور سارا کام سرکار پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ہم نے ایسے موقعوں پر دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو عوامی امداد کے نام پر سرگرمیوں کا چرچا کرتے ہیں ایسے نظر نہیں آتے ۔ 2014 کے سیلاب کے موقعے پر ضرور دیکھا گیا کہ لوگوں نے رضاکارانہ طور ایک دوسرے کی مدد کی اور متاثرہ لوگوں کو بہت جلد ان کی ٹانگوں پر کھڑا کیا ۔ اس وجہ سے لوگ بہت جلد اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن بعد میں یہ سلسلہ جاری نہ رہا ۔ لوگوں نے بھائی چارے کی بنیاد پر متاثرہ افراد تک پہنچنے کا یہ جذبہ بہت جلد خود سے الگ کردیا ۔ ادھر یہ بات بڑی اہم ہے کہ سرکار نے 2014 کے سیلاب سے کوئی سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ دریائوں اور ندی نالوں کو کشادہ کرنے کا جو کام ہاتھ میں لیا گیا تھا وہ سست رفتاری کا شکار ہوگیا ۔ اس دوران جو پل وغیرہ بنائے گئے وہ بھی کارآمد ثابت نہ ہوئے ۔ آج پانی کا دبائو بڑھ جانے سے بیشتر بوسیدہ پل گرگئے اور بندھ بھی ٹوٹ گئے ۔ اس وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ماضی کی روایات کے مقابلے میں اب لوگوں کو سیلاب کی صورتحال کے اندر کھانے پینے کی اشیا میسر رہتے ہیں ۔ دس بیس سال پہلے ایک آدھ دن کی بارش کے بعد ہی کھانے پینے کی اشیا مارکٹ سے غائب ہوجاتی تھیں ۔ آج ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر عام طور سرینگر اور دوسرے شہروں کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہاں ڈرینیج سسٹم اپنی ضرورت کا کام کرنے سے قاصر ہے ۔ گلی کوچوں میں پانی جمع ہونے کے دوران یہ بات سامنے آتی ہے کہ پانی کے نکاس کا سارا سسٹم مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اس وجہ سے پورا شہر دریا کی صورت اختیار کرتا ہے ۔ عوام پچھلے کئی سالوں سے اس بات پر احتجاج کررہے ہیں کہ انہیں معمولی بارش کی صورت میں گھروں سے نکلنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں ۔ کئی بار یقین دلایاگیا کہ اس طرح کی صورتحال پر بہت جلد قابو پایا جائے گا ۔ لیکن صورتحال میں کمی آنے کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہوتا ہے ۔ سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں اور پانی کے نکاس کے لئے پمپ استعمال کرنا پڑتے ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرینیج سسٹم اصل مقصد حاصل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہورہاہے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سیلابی صورتحال چاہئے کم ہو یا زیادہ لوگوں کے لئے مصیبت کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس صورتحال پر مکمل طور قابو پانے کے لئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔
