کورپشن کے حوالے سے سامنے آئی خبر نے عوامی حلقوں کو حیران کیا ہے ۔ سرینگر کے مضافات میں تعینات تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک اسامی سے پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ طے شدہ رقم کی پہلی قسط وصول کرتے ہوئے دونوں کو پکڑا گیا اور مبینہ طور رقم ان کی تحویل سے حاصل کی گئی ۔ اینٹی کورپشن بیرو کی طرف سے کی گئی اس کاروائی کو بڑے پیمانے پر سراہا جارہا ہے ۔ تاہم اس بات پر سخت حیرانی کا اظہار کیا جارہاہے کہ کورپشن کی وبا پر اب تک قابو پانے میں انتظامیہ پوری طرح سے ناکام ہے ۔
کورپشن کا جو واقع سرینگر میں پیش آیا چونکا دینے والا واقع ہے ۔ اس واقعے کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی ۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اس واقعے کو بڑے پیمانے پر مشتہر کیا گیا ۔ تاہم اس سے اہم بات یہ ہے کہ اس واقعے پر جو تبصرے کئے گئے وہ حیران کن ہیں ۔ اس حوالے سے لوگوں نے جو رائے دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کورپشن اب تک یہاں کی نس نس میں موجود ہے ۔ لوگوں کو موقع ملا کہ وہ اپنے دل کا غبار نکالیں تو انہوں نے کھل کر اظہار رائے کیا ۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ لوگوں کو اپنے مسائل حل کرانے کے لئے اب بھی رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ رشوت کے بغیر کہیں ان کا کام نہیں ہوتا ہے ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اس نے ورک کلچر کو فروغ دیا اور لوگوں کے مسائل حل کرانے کے لئے ایک سازگار ماحول تیار کیا ۔ رشوت میں ملوث رہے کئی سرکاری اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کرکے گھر بھیجدیا گیا ۔ اس سے واقعی ملازموں کے اندر خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوگیا ۔ اس کے بعد اندازہ لگایا جارہاتھا کہ رشوت کا قلع قمع ہوجائے گا ۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ لوگوں نے اعلانیہ کہا کہ انہیں جہاں کوئی مسئلہ حل کرانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ وہ جس دفتر میں بھی جاتے ہیں رشوت کے بغیر کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی صورتحال ہے ۔ خیال رہے کہ اس معاملے میں لوگوں کی رائے مقدم ہے ۔ ہم کتنا بھی دعویٰ کریں کہ مسائل حل کرانے میں تیزی لائی گئی ہے ۔ ہم اسٹیج پر گلا پھاڑ کر کہیں کہ رشوت اور اقربا نوازی کو جڑ سے اکھا ڑا گیا ۔ لوگ ان باتوں پر یقین کرنے کوتیار نہیں ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے کی طرح انہیں آج بھی دفتری بابووں کی مٹھیاں گرم کرنا پڑتی ہیں ۔ بلکہ پہلے سے زیادہ ریٹ پر رشوت دینا پڑتی ہے ۔ یہ صرف ریونیو کا محکمہ ہی نہیں ہے جہاں لوگوں کو معمولی کام کے لئے رشوت دے کر اپنا کام کرانا پڑتا ہے ۔ بلکہ ہر محکمے میں یہی چلن ہے ۔ پولیس تھانے ، انجینرنگ کے دفاتر ، ہسپتال کے وارڈ اور تھیٹر غرض جہاں بھی عام شہریوں کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے رشوت دے کر ہی اپنا کام کرانا پڑتا ہے ۔ حال ہی میں معلوم ہوا کہ پولیس میں آفیسروں کی بھرتی کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر اسامیوں پر تعیناتی کے لئے بڑے پیمانے پر رشوت کا لین دین کیا گیا ہے ۔ انتظامیہ نے اس فہرست کو منسوخ کرتے ہوئے الزامات کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ حوصلہ افزا کاروائی اپنی جگہ ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ ایسے آفیسروں کی تعیناتی کے معاملے میں جب لاکھوں روپے کی رشوت ستانی کے الزامات لگائے جائیں تو نظام کو بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے نظام کو عوام دوست بنانا بہت مشکل ہے ۔ موجودہ مرحلے پر جبکہ سرکاری ملازموں پر انتظامیہ کا دبائو دن بہ دن بڑھایا جارہاہے ۔ ان سے پہلے کے مقابلے میں مبینہ طور جواب دہ بنانے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ اس طرح کے ماحول میں بھی رشوت ستانی کا چلن ہو تو انتظامیہ کی بے بسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ رشوت کے اس چلن پر قابو پانا آسان نہیں ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ پچھلے ستھر سالوں سے یہاں ایسا کاروبار جاری ہے ۔ اس پر راتوں رات قابو نہیں پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس بات کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کہ رشوت کے اس ماحول کو فروغ دینے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں ۔ یہاں صاف و شفاف نظام فراہم کرنے کی کوششیں بڑی سست رفتاری سے کی جارہی ہیں ۔ بنیادی سطح پر نظام کو بہتر بنانے کی کوئی کوششیں نظر نہیں آرہی ہیں ۔ ضلعی حکام اپنے اپنے علاقوں کے وائسرائے بن گئے ہیں ۔ ان سے کہیں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہورہی ہے ۔ عوام کے سامنے انہیں اپنے عمل کا کوئی حساب پیش نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ بلکہ ان کا عوام کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں ۔ اس دوران چھوٹے درجے کے ملازم اپنی من مانیاں کرتے رہتے ہیں ۔ وہ عوامی مفاد سے کھیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ ایسے ہی اسباب ہیں جو پورے نظام کو تہس نہس کردیتے ہیں ۔ اس وجہ سے عوام مایوسی کا شکار ہیں ۔
