جموں کشمیر کے چیف سیکریٹری نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے عمل کو صاف وشفاف بنایا جائے گا ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ایسی بھرتیوں میں معمولی دھاندلی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ چیف سیکریٹری نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ملازموں کی تعیناتی کو تجارت نہیں بننے دئے جائے گا بلکہ میرٹ کو ہر صورت میں فوقیت دی جائے گی ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رشوت اور اقربا پروری کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ چیف سیکریٹری نے یہ بات واضح کی کہ سرکاری خدمات کے لئے میرٹ کو سب سے اہم سمجھا جائے گا اور کسی بھی طرح کی دھاندلی کو برداشت نہیں کیا جائے ۔ لیفٹنٹ گورنر کی طرف سے ایک سرکاری منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے چیف سیکریٹری نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی کہ صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر ہی سرکاری ملازمتوں میں بھرتی عمل میں لائی جائے گی ۔
سرکار نے کچھ عرصہ پہلے فاسٹ ٹریک طریقے پر سرکاری ملازمتوں کی بھرتی عمل میں لانے کا منصوبہ بنایا ۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں ملازموں کی بھرتی کا اعلان کیا گیا ۔ مختلف محکموں اور دفتروں میں طویل عرصے سے خالی پڑی اسامیوں کو جلد از جلد پر کرنے کے عزم کا اعلان کیا گیا تاکہ لوگوں کو بہتر سہولیات میسر آسکیں ۔ یہ عمل شروع کرتے ہی کئی حلقوں کے خدشات سامنے آئے ۔ ملازم بھرتیوں کی جو بھی فہرست جاری کی گئی اس میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ۔ فائرسروس محکمے میں کئی سو افراد تعینات کئے گئے ۔ محکمے میں پہلے ہی اس طرح کی ایک فیرست منسوخ کی گئی تھی ۔ اس فہرست کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں ۔ نئی فہرست سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ نہلے پر دہلا ہے اور اس میں کسی طرح کے اصول وضوابط کی پابندی نہیں کی گئی ہے ۔ نئی فہرست کے خلاف نوجوانوں نے سرینگر کے علاوہ جموں میں احتجاج کیا ۔ احتجاج کرنے والے ملازم مطالبہ کررہے تھے کہ جاری فہرست کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ یہ نوجوان اب تک الزام لگارہے ہیں کہ بھرتیاں سراسر جانبداری سے کی گئی ہیں ۔ سرکار نے تحقیقات کا مطالبہ مسترد کیا ۔ حالانکہ دھاندلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ کچھ خاندانوں کے دو دو تین تین افراد بھرتی ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت نے اس طرف کان نہیں دھرا اور الزامات نظر انداز کئے ۔ اس کے بعد جموں کشمیر بینک میں بھرتیاں کی گئیں ۔ اس حوالے سے بھی نقائص اور رشوت ستانی کے الزامات لگائے گئے ۔ بلکہ پہلے کی طرح ایک فہرست کو مسترد کیا گیا اور بعد میں دوسری فہرست سامنے آئی ۔ واضح غلطیاں ہونے کے باوجود سرکار نے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا ۔ غرض دھاندلیوں کے الزامات لگتے رہے اور حکومت بھی اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہوئے بھرتیاں کرتی گئی ۔ یہاں تک کہ پولیس آفیسروں کی بھرتی کے عمل میں یہی طریقہ اپنایا گیا ۔ تاہم اس موقعے پر حکومت نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آفیسران کی تعیناتی کا پورا عمل ہی منسوخ کیا ۔ اس موقعے پر تعیناتی کے عمل کو سراسر فراڈ ہونے کا الزام لگایا گیا ۔ ثابت ہوا کہ اس حوالے سے لئے گئے امتحان کے سوالنامے پہلے سے ہی کچھ امیدواروں کو فروخت کئے گئے تھے ۔ خرید و فروخت کے اس عمل میں ایک ایک امیدوار سے پندرہ پندرہ لاکھ روپے وصول کئے گئے تھے ۔ سرکار نے اس حوالے سے لئے گئے امتحان کو فراڈ قرار دیتے ہوئے پورے عمل کو منسوخ کیا ۔ اب کہا جاتا ہے کہ پھر سے امتحان لے کر نئی فہرست تیار کی جائے گی ۔ نئی بھرتیاں عمل میں لانے کے دوران کیا واقعی دیانت داری سے کام لیا جائے گا ۔ اس پر کئی حلقے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ۔ یہاں آئے روز کورپشن کے جو واقعات سامنے آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ملازموں پر حکومتی اداروں کا کوئی خوف نہیں پایا جاتا ۔ انٹی کورپشن اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جاری کاروائیوں کے باوجود ہر روز کسی نہ کسی آفیسر کو رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رشوت ستانی کا بازار اب بھی گرم ہے ۔ جس کسی کو جہاں کہیں بھی ہاتھ مارنے کا موقع مل جاتا ہے پیچھے نہیں رہتا ۔ اب تک درجنوں ایسے ملازموں کو رشوت معاملات میں ملوث ہونے کی بنیاد پر نوکریوں سے نکالا گیا ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ رشوت کا بازار بند نہیں ہوتا ہے ۔ ان شواہد کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ چیف سیکریٹری کی یقین دہانیاں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکتیں ۔ جن افراد نے پولیس آفیسروں کی بھرتی کے عمل میں دھاندلیاں کی ہیں ان کی کوئی نشاندہی ہوئی نہ تاحال کوئی بڑی کاروائی کی گئی ۔ اس وجہ سے عوام میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔
