کچھ ہفتوں کی خاموشی کے بعد غیرمقامی باشندوں کو پھر ٹارگٹ بنایا گیا ۔ یتازہ واقع جمعرات کی شام کو پلوامہ کے گڈورہ علاقے میں پیش آیا جہاں بہار سے تعلق رکھنے والے مزدوروں پر گرینیڈ پھینکا گیا ۔ گرینیڈ حملے میں ایک مزدور ہلاک اور دوسرے دو زخمی ہوگئے ۔ اس سے پورے علاقے میں سنسنی پائی جاتی ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے حملہ آوروں کو پکڑنے کی کاروائی شروع کی ہے ۔ عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے اس واقعے کی کئی حلقوں نے مذمت کی ہے ۔ سیاسی حلقوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ عام شہریوں نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہوئی ہے ۔ تاہم سیکورٹی سے منسلک اداروں کا کہنا ہے کہ بہت جلد ان تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ہلاک کئے گئے شخص کی شناخت بہار کے محمد ممتاز کے طور کی گئی ہے ۔ جبکہ زخمی مزدور بھی اسی علاقے کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں ۔
عام شہریوں اور غیر مقامی مزدوروں کو ہلاک کئے جانا کا جو واقع گڈورہ میں پیش آیا یہ اسی سلسلے کی کڑی بتائی جاتی ہے جس میں کئی ہفتے پہلے سرینگر کے علاوہ شمالی کشمیر میں کئی افراد مارے گئے تھے ۔ ان حملوں کی وجہ سے یہاں کام کررہے غیر مقامی اور غیر مسلم شہریوں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی تھی ۔ خاص طور سے کشمیر میں سرکاری نوکری کرنے والے جموں علاقے کے بہت سے ملازم اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ یہ ملازم ابھی تک احتجاج کررہے ہیں کہ سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر انہیں محفوظ علاقوں میں تعینات کیا جائے ۔ ان میں سے کئی ملازموں نے لیفٹنٹ گورنر کے سامنے میمورنڈم پیش کرکے ہلاکتوں پر افسوس کرنے کے علاوہ ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ۔ پلوامہ میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مزدوری کے لئے آئے غریب شہریوں کو نشانہ بنایا جارہاہے ۔ ان حملوں سے کوئی مقصد پورا ہونے کے بجائے ملی ٹنٹوں پر دبائو میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے اس طرح کے حملوں میں ملوث تمام نوجوانوں کو مبینہ طور مارا یا گرفتار کیا گیا ۔ سیکورٹی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسے حملوں میں ملوث نوجوانوں کی نشاندہی کرنے میں انہیں عوام کی طرف سے کافی تعاون مل جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیکورٹی حلقے حملوں میں ملوث جنگجووں کی شناخت کرنے اور انہیں ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں تک پہنچنے میں عوام پولیس اور فوج کو تعاون دیتے ہیں ۔ بصورت دیگر کوئی کاروائی کرنا مشکل ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود ملی ٹنٹ ان افراد کو نشانہ بناتے ہیں جن کا ملی ٹنسی کے ساتھ دور کا تعلق نہیں ۔ انہیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ بلکہ یہ لوگ غربت کی وجہ سے اپنے گھروں سے دور یہاں چار پیسے کمانے کے لئے آتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ محنت کا کوئی کام اپنے ہاتھوں کرنے کے بجائے انہی غیر مقامی باشندوں سے کراتے ہیں ۔ یہ اگر کشمیر نہ آئیں تو یہاں مبینہ طور تمام کام ٹھپ پڑنے کا اندیشہ ہے ۔ بلکہ کرونا کے دوران جب عام لوگوں کی نقل وحمل بند ہوئی تو ان کے کشمیر نہ آنے کی وجہ سے یہاں سخت نقصان ہوا ۔ زمینی داری کا کام انجام دینے میں مشکلات آئیں اور باغوں میں کوئی کام انجام دینا مشکل ہوا ۔ اسی طرح اینٹوں کے بٹھوں اور کارخانوں میں جو کام بہار اور بنگال سے آئے مزدور کرتے ہیں کشمیر کے نوجوان وہ کام کرنے کو تیار نہیں ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر غیر مقامی مزدوروں کا یہاں آنا ہماری ضرورت بن گیا ہے ۔ بلکہ اسے اشد ضرورت قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ ہماری نااہلی اور کاہلی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال ایسے ہزاروں مزدور یہاں آکر کمائی کرتے ہیں ۔ مقامی نوجوان اس بات کا رونا روتے ہیں کہ بے کاری اور بے روزگاری نے ان کا جینا مشکل بنادیا ہے ۔ اس کے بجائے غیر مقامی مزدوروں کے لئے کشمیر سونے کی کان ہے جہاں یہ مزدور دو چار مہینے رہ کر لاکھوں روپے کماکر لے جاتے ہیں ۔ غیر مقامی مزدوروں کا ان کے اپنے میٹھ اور ٹھیکے دار استحصال نہ کریں تو یہ لوگ بہتر زندگی گزارنے کے اہل ہوسکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی یہاں کے عوام کو بڑی سہولت میسر آتی ہے ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے یہاں تعمیراتی کام انجام دینا آسان ہوجاتا ہے ۔ بہت سے ایسے کام ہیں جو ان ہی غیر مقامی مزدوروں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں ۔ بصورت دیگر ایسے کام انجام ہی نہیں پائیں گے ۔ اس دوران ان مزدوروں پر گولیاں چلانا یا گرینیڈ پھینکنا عجیب معاملہ معلوم ہوتا ہے ۔ ان کے اندر خوف پیدا کرکے انہیں بھاگ جانے پر مجبور کرنا یہاں کے کام کاج کو مفلوج کرنے کے برابر ہے ۔ اس صورتحال کو برداشت کرنا کشمیریوں کے لئے شاید ممکن نہیں ہوگا ۔