ایوشمان بھارت اسکیم طبی صحت سے متعلق ایک فائدہ مند اسکیم ہے ۔ اسکیم کے تحت ہر شہری کو سنہری کارڈ فراہم کیا جاتا ہے ۔ کارڈ کا استعمال کرکے کوئی بھی مریض مفت طبی سہولیات حاصل کرسکتا ہے ۔ اسکیم کی لوگوں نے بڑے پیمانے پر سراہانا کی ۔ مرکزی سرکار کی اسکیموں میں مذکورہ اسکیم کو اب تک کی سب سے فائدہ مند اسکیم خیال کیا جاتا ہے ۔ اسکیم نے ہر شہری کے لئے طبی سہولیات فراہم کرنے کے نظام کو مضبوط بنایا اور مریضوں کو یہ اطمینان دیا کہ ان کی دیکھ ریکھ کے لئے سرکار فکر مند ہے ۔ سرکاری اداروں نے اسکیم کو وسیع پیمانے پر متعارف کرانے کے لئے سخت کوشش کی اور اس کو ہر شہری تک پہنچانا لازمی بنادیا ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسکیم اپنا سو فیصد ہدف پورا کرنے کے قریب ہے ۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ ملک کی پوری آبادی کو اسکیم کے دائرے میں لانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ تاہم یہ بات افسوسناک ہے کہ اسکیم کا غلط فائدہ اٹھاکر اس کا استحصال کیا جاتا ہے ۔
جموں کشمیر میں طبی ڈھانچہ انتہائی ناقص ہے اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں آج بھی لوگوں کو طبی مشورہ حاصل کرنے کے لئے کئی میلوں کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے ۔ ایک مریض کے لئے ایسی صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ پھر اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب مریض کو اطمینان بخش طبی سہولیات میسر نہیں آتی ۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر موجود ہوتا ہے نہ ادویات فراہم ہوتے ہیں ۔ یہ ایک بڑا مافیا ہے جس پر واویلا کے باوجود سرکار اب تک قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔ مریضوں کو کہیں بھی اطمینان بخش طبی سہولیات میسر نہیں ہوتی ہیں ۔ خاص طور سے جان لیوا بیماریوں کا مقابلہ کرنے والے مریض سخت مایوسی کا شکار ہیں ۔ ایسے بیشتر مریض چاہتے ہیں کہ دہلی ، ممبئی یا دوسرے علاقوں میں جاکر اپنا علاج کرائیں ۔ آج بھی دیکھا جائے تو کئی سو مریض جموں کشمیر سے باہر نجی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ جموں کشمیر کے ہسپتالوں کا نظام نہ صرف افراتفری کا شکار ہے بلکہ طبی عملہ لوگوں کو لوٹنے میں مشغول ہے ۔ ڈاکٹروں نے اپنے پیشے کو ڈرگ مافیا کی طرح ایسے ناجائز کاروبار میں تبدیل کیا ہے جہاں پیسے حاصل کرنے کے لئے اچھے بھلے شہریوں کو کینسر اور دوسرے ایسے ہی امراض میں مبتلا ٹھہرایا جاتا ہے ۔ پولیس جس طرح منشیات اور رشوت کے کاروبار کو ختم کرنے میں لگی ہے اسی طرح طبی عملے کی بے ہودہ حرکات کو ختم کرنے پر آئے تو یہ کشمیر کا سب سے بڑا مافیا ثابت ہوگا ۔ ہر ڈاکٹر نے اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں جہاں اسی طرح مریضوں بلکہ صحت مند اشخاص کو لوٹا جاتا ہے جس طرح ڈاکو معزز شہریوں کو قتل کرکے لوٹ لیتے ہیں ۔ ڈاکووں اور ڈاکٹروں میں بس یہ فرق ہے کہ ڈاکو سنسان علاقے میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں ۔ اس کے برعکس ڈاکٹر مصروف بازاروں میں لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں ۔ یہ ایک دردناک کہانی ہے جس سے نجات ملنا بہت مشکل ہے ۔ تاہم لوگوں کو ایوشمان اسکیم سے یہ سہولت ملی ہے کہ لوگ کسی بھی بہتر ہسپتال میں جاکر اپنا علاج کراتے ہیں ۔ ادھر اطلاع ہے کہ اسکیم کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہورہاہے ۔ حال ہی میںاس حوالے سے منعقد میٹنگ میں جائزہ لیتے ہوئے پتہ چلا کہ اسکیم کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جارہاہے ۔ ڈاکٹروں نے اپنے کاروبار کو بڑاھاوا دینے کے لئے اسکیم کو فراڈ طریقوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ مریضوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے فرضی بلیں تیار کرکے سرکار کو لوٹنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ سرکار کی کوشش ہے کہ اسکیم کو صاف و شفاف طریقے سے چلایا جائے ۔ لیکن ڈاکٹروں اور دوسرے کاروباری اداروں کی کوشش ہے کہ اسکیم کے ذریعے سرکاری خزانہ کو لوٹا جائے ۔ جموں کشمیر میں بیشتر سرکاری اسکیموں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ ایسی اسکیمیں اسی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں کہ ان اسکیموں کو بہتر طریقے سے چلنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان اسکیموں پر نظر رکھنے والے ادارے سرکاری اہلکاروں اور اداروں کو جوابدہ بنانے کے بجائے عام شہریوں کے خلاف کاروائی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکیمیں زیادہ دیر نہیں چلتی ہیں ۔ ایوشمان اسکیم اک وہی حال کیا جارہاہے جو تعلیمی حلقوں نے سروشکھشا اسکیم کا کیا ۔ آج سرکاری تعلیمی شعبہ اس وجہ سے زوال کا شکار ہے کہ مرکزی اسکیموں کو ناکام بنانے میں محکمے کے آفیسروں نے بڑے پیمانے پر اسکیم کا استحصال کیا ۔ سرو شکھشا کا جو انجام ہونا تھا ہوا ۔ اب ایوشمان اسکیم کو بھی اسی انجام سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ اس سے پہلے کہ اسکیم کی بساط لپیٹی جائے ضرورت ہے کہ طبی اداروں خاص کر الکاروں کو جوابدہ بنایا جائے ۔ بصورت دیگر یہ یہاں کے عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا ۔
