سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کی کانگریس سے علاحدگی پر ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے ۔ بی جے پی نے اسے کانگریس کا اندرونی معاملہ قراردیتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ۔ تاہم یہ بات زور دے کر کہی کہ کانگریس کا انتشار اس کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ آزاد نے کانگریس سے علاحدگی کے بعد ایک نئی قومی سیاسی جماعت بنانے کا اشارہ دیا ہے ۔ ان کے اس اقدام کو بعض سیاسی حلقوں نے سراہا ہے ۔ جبکہ کچھ حلقے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں ۔کشمیر میں کئی حلقوں نے اسے بی جے پی کی سازش قرار دیتے ہوئے اسے غلط قدم بتایا ہے ۔ اپنی پارٹی کے رہنما الطاف بخاری نے آزاد کی طرف سے نئی پارٹی بنانے کے اعلان کو ایک بڑی سازش قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ آزاد کا اس طرح کا اقدام محض بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے اٹھایا جارہاہے ۔ بخاری نے الزام لگایا کہ آزاد نے دفعہ 370 ہٹانے میں بی جے پی کی بھرپور مدد کی ۔ یادرہے کہ الطاف بخاری نے جب پی ڈی پی سے الگ ہوکر اپنی پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی تو ان پر کئی حلقوں نے الزام لگایا کہ ایسا بی جے پی کے کہنے پر کیا گیا ۔ بلکہ کئی حلقے اپنی پارٹی کو آج تک بی جے پی کی بی ٹیم قرار دیتے ہیں ۔ ادھر این سی سربراہ ڈاکتر فاروق نے آزاد کی کانگریس سے علاحدگی کو ایک بڑا سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے انہیں کشمیر کی اندرونی خودمختاری بحال کرنے کے لئے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا ۔ آزاد نے دوسری سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کای ۔ اس دوران پردیش کانگریس کے کئی دیرینہ کارکنوں اور سابق اسمبلی ارکان نے کانگریس سے الگ ہوکر آزاد کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ۔ ان میں کشمیر کے علاوہ جموں کے کئی نمایاں لیڈر شامل ہیں ۔
بائیں بازو کی سیکولر جماعتوں میں انتشار یا اضافہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے کسی بھیا قدام کو بی جے پی کے حق میں مہم قرار دیا جاتا ہے ۔ خاص طور سے آزاد کی کانگریس سے علاحدگی اور نئی پارٹی بنانے کو ایک غیر معمولی قدم قرار دیا جاتا ہے ۔ آزادکی کانگریس کے ساتھ پچھلے طویل عرصے سے خاموش جنگ چل رہی تھی ۔ آپ راجیہ سبھا میں کانگریس کے رکن اور اپوزیشن کے رہنما تھا ۔ اس مرحلے پر انہوں نے آہستہ آہستہ کانگریس سے دور رہنا شروع کیا ۔ ان کے ہمراہ دوسرے دو درجن رہنمائوں نے نہرو خاندان پر الزام لگایا کہ انہوں نے کانگریس کو کمزور کرکے عوام میں اس کے خلاف نفرت پیدا کی ۔ اس موقعے پر جب آزاد کی راجیہ سبھا کی رکنیت کا معیاد پورا ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی تعریفوں کے پل باندھے اور انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنانے کے لئے بی جے پی کی طرف سے حمایت دینے کی آفر کی ۔ اس پر کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے آزاد کی سیاسی وفاداریوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ۔ آزاد کانگریس کی طرف سے راجیہ سبھا کا ممبر بنائے جانے کے علاوہ کانگریس کی طرف سے ہی جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ بھی بنائے گئے تھے ۔ تاہم کانگریس کا ملکی سطح پر زوال شروع ہونے اور کئی انتخابات میں ناکامی کے بعد آزاد نے کانگریس قیادت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ۔ ان کا کانگریس سے استعفیٰ ان کی پارٹی کے ساتھ پچاس سال کی قربت کے بعد سامنے آیا ۔ ایک سال پہلے جب انہیں کانگریس سے دوری کے حوالے سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کسی بھی حال میں کانگریس سے مستعفیٰ ہونے سے انکار کیا تھا ۔ لیکن آج انہوں نے اس طرح کے خدشات درست ثابت کرتے ہوئے کانگریس کے عہدوں اور اس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کے کانگریس سے مستعفی ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ سیاست میں ایسے اتار و چڑھائو آتے رہتے ہیں ۔ تاہم آزاد نے پارٹی سے الگ ہونے میں قدرے دیری سے کام لیا ۔ ادھر خیال کیا جاتا ہے کہ جموں کشمیر میں اگلے کچھ مہینوں کے دوران اسمبلی بحال ہونے اور اس کے لئے انتخابات کرائے جانے کا امکان ہے ۔ اس مرحلے پر ان کی کانگریس سے علاحدگی اور نئی جماعت بنانے کے اعلان کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ مقامی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے اور قومی جماعتوں کے کردار کو فعال بنانے کے لئے آزاد کو کشمیر سیاست میں کودنے کیلئے تیار کیا گیا ۔ ایسا ضروری نہیں کہ اس کے لئے بی جے پی نے انہیں آمادہ کیا ہو ۔ آزاد سے پہلے مفتی محمد سعید بھی اسی طرح کانگریس سے الگ ہوکر پہلے جنتا دل میں آئے اور پھر جموں کشمیر پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی بناکر وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ۔ اب آزاد نے یہی راستہ چن لیا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہو ۔ اب آگے معلوم ہوگا کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ہے ۔
