نیشنل کانفرنس کے اس اعلان نے کہ آئندہ انتخابات میں پارٹی تمام کی تما م نشستوں پراکیلے الیکشن لڑے گی گپکار الائنس کی بنیاد ہلاکے رکھ دی ۔ این سی لیڈروں کا کہنا ہے کہ الائنس میں ان کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس بیان سے سیاسی حلقوں کے اندر سخت ہلچل پائی جاتی ہے ۔ الائنس اصل میں مرکز کے اس فیصلے کے رد عمل میں سامنے آیا تھا جب جموں کشمیر کو آئین میں موجود دفعہ 370 کے تحت خصوصی پوزیشن کو ختم کیا گیا تھا ۔ اس فیصلے کے فوراََ بعد یہاں کی مین اسٹریم جماعتوں کے تمام لیڈروں کو گرفتار کیا گیا ۔ بعد میں جب انہیں رہا کیا گیا تو انہوں نے این سی رہنما فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ واقع گپکار روڈ سرینگر پر ایک اجلاس بلاکر پیوپلز الائنس کے نام سے اتحاد بنایا تھا ۔ اس اتحاد کو گپکار الائنس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس اتحاد میں ایک دوسرے کے حریف بنی ہوئی دو اہم سیاسی پارٹیوں این سی اور پی ڈی پی نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاکر جدوجہد میں حصہ لینے کا اعلان کیا ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران الائنس نے کئی اجلاس منعقد کئے اور مرکزی سرکار کے بعض فیصلوں کے حوالے سے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ اتحاد زیادہ دیر قائم رکھنا مشکل ہے ۔ اندر کا کھیل کیسے چل رہاہے اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اتحاد میں کسی وجہ سے دراڑ پڑرہی ہے ۔اتحاد کب تک قائم رہے گا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
گپکار الائنس کے حوالے سے کبھی بھی کوئی خوش فہمی نہیں پائی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو لوگوں نے کسی بھی موقعے پر سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ ایسی بات نہیں ہے کہ لوگ کشمیر کی اندرونی خوش مختاری ختم ہونے پر خوش تھے ۔ تاہم مایوس ضرور تھے ۔ عوام یہ اندازہ لگانے میں غلط نہیں کہ اس صورتحالا کا مقابلہ کرنے کی گپکار الائنس میں سرے سے کوئی صلاحیت نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار کی آگوش میں پلے بڑھے ہیں ۔ ان کی ہر کوشش اقتدار حاصل کرنے تک محدود ہے ۔ اس سے زیادہ یہ کوئی بات سوچ نہیں سکتے ۔ ماضی میں این سی نے کئی بار اندرونی خودمختاری کا مدعا اٹھایا ۔ کانگریس کے دور میں اس نے علاحدگی پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے خودمختاری کا سہارا لیا ۔ بلکہ کسی حد تک اس بنیاد پر علاحدگی پسندوں کو دیوار سے لگانے میں کامیابی حاصل کی ۔ بعد میں جب این سی کی قیادت میں اسمبلی میں اندرونی خود مختاری کے حوالے سے ریزولیوشن پاس کیا گیا اور مرکزی سرکار نے اسے مسترد کیا تو این سی لیڈروں نے کوئی فرق محسوس نہ کیا ۔ اسی طرح پی ڈی پی کے بارے میں پایا جانے والا عوامی بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے ۔ اقتدار میں رہ کر پارٹی نے ہر صحیح اور غلط کی تائید کی ۔ بلکہ تاثر یہی ہے ک موجودہ صورتحال کے لئے اسی پارٹی نے راہ ہموار کی ۔ الائنس میں موجود دوسری پارٹیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ۔ اس دوران الائنس کا انجام کیا ہوگا ؟ عوام اس معاملے میں کسی طور فکر مند نہیں ۔ الائنس نے سخت کوشش کی تھی کہ عوام کی نمائندگی کا حق حاصل کرے ۔ اس دوران مرکزی سرکار نے دوسرے کئی رہنمائوں کے ساتھ الائنس رہنمائوں کو دہلی بلاکر بات چیت میں شامل کیا ۔ لیکن یہ معاملہ زیادہ دیر نہ چلا اور گیند واپس کشمیر کے کورٹ میں آگئی ۔ یہاں تک کہ پچھلے دنوں اس کے اندر دراڑ کے آثار نظر آنے لگے ۔کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ کانگریس سے غلام نبی آزاد کی علاحدگی کے بعد الائنس میں افراتفری شروع ہوگئی ۔ آزاد اور اس کے کئی ساتھیوں کے حوالے سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ این سی میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ شاید مرکزی سرکار انہیں اپنے زیر اثر لانے میں کامیاب ہوگی ۔ اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ وزیراعظم آزاد کو راجیہ سبھا کا ممبر بنانے کی پیش کش کرچکے ہیں ۔ لیکن کسی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی ۔ بعد میں آزاد نے بی جے پی شامل ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کالی برف تو پڑ سکتی ہے لیکن آزاد بی جے پی میں شامل نہیں ہوگا ۔ اسی دن سے اندازہ لگایا جارہاہے کہ آزاد این سی میں پناہ لینے کی تیاریاں کررہاہے ۔ ادھر کہا جاتا ہے کہ الائنس میں شامل دوسری جماعتیں آزاد کے کانگریس چھوڑ کر این سی جوئن کرنے سے خوش نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی کوئی آفر دے کر مرکزی کانگریس کی حمایت سے ہاتھ دھونا یقینی ہے ۔ ادھر پی سی کے سربراہ سجاد لون نے اپنے تازہ بیان میں فاروق عبداللہ کی قیادت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے پی ڈی پی سربرا ہ سے کسی بھی صورت میں ہاتھ ملانے سے انکار کیا ۔ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ این سی نئی صف بندی میں مصروف ہوگئی ہے ۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ آزاد نے کانگریس کو خیرباد کہہ دی ۔ این سی کے عمر عبداللہ نے گپکار الائنس میں شامل ساتھی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا ۔ این سی نے جموں کشمیر کی تمام 90 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ۔ مرکز کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موجود غیر مقامی شہریوں سمیت 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا جارہاہے ۔ اس کے بعد تین من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی ۔ البتہ مقامی جماعتوں کے درمیان جو جنگ شروع ہوچکی ہے وہ جاری رہے گی ۔
