کئی لوگ اس بات پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت سیب صنعت کو تباہی سے بچانے کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کو لے کرشاہراہ پر میوہ ٹرکوں کو مختلف مقامات پر گھنٹوں روکے رکھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے نہ صرف ٹرک ڈرائیوروں کو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے بلکہ میوے خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔ وقت پر میوہ منزل تک نہ پہنچ پائے تو قیمت گھٹنا یقینی بات ہے ۔ اسی وجہ سے کئی حلقے میوہ ٹرکوں کو راستے میں روکے رکھے جانے سے احتراز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاوجہ اور کسی بہانے سے میوہ سے بھری ٹرکوں کو سڑک پر روکے روکھنا صحیح فیصلہ نہیں ہے ۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹرکوں کو بلا سبب نہیں روکا جاتا ہے ۔ بلکہ اس کی نمایاں وجوہات ہیں ۔ خاص طور سے سیکورٹی کو لے کر بات کی جائے تو کسی بھی اقدام کی مخالفت کرنا صحیح نہیں ہے ۔تاہم حکومت سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ ٹرکوں کی بلا تاخیر منزل تک روانگی کو ممکن بنایا جائے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو سیبوں کی صنعت کو سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔
کشمیر میں فروٹ انڈسٹری خاص کر سیبوں کی صنعت سخت خسارے سے دوچار ہے ۔ پہلے ہی منڈیوں میں کشمیری میووں کے بھائو بہت کم ہیں ۔ بیوپاریوں نے مبینہ طور جان بوجھ کر بھائو کم کئے ۔ لوگ مجبور ہیں کہ میوے جلد از جلد فروخت کریں ۔ ان سے جو پیسے ملتے ہیں اس سے قرضہ چکانا ممکن ہوتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میووں خاص کر سیب کی فصل کو محفوظ بنانے کے لئے پورا سال دو اپاشی کرنا پڑتی ہے ۔ مختلف قسم کی ادویات خرید کر ان کے استعمال سے میووں کو کئی قسم کی بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے ۔ بہت سے باغ مالکان یہ ادویات ادھار میں لیتے ہیں ۔ شرط یہ رکھی جاتی ہے ک فصل فروخت کرکے ادویات کی قیمت ادا کی جائے گی ۔ لیکن اس سال لگتا ہے کہ میوہ فروخت کرنے کے بعد قرضہ چکانا ممکن نہیں ہوگا ۔ اتنی قیمت ملنا مشکل ہے جتنا قرضہ کسانوں پر چڑھادیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسان سخت مایوس ہیں ۔ اس دوران خیال تھا کہ سرکار ان سے ہمدردی دکھائے گی ۔ لیکن اس کا امکان نظر نہیں آتا ہے ۔ کووڈ وبا کے دو سالوں کے دوران حکومت نے سہارا بن کر باغ مالکان کو راحت پہنچانے کے اقدامات کئے ۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے ک حکومت تھک چکی ہے ۔ حکومت نے دوسال اپنے سینٹر قائم کرکے لوگوں کو ان سنٹروں تک میوہ پہنچانے کے لئے کہا جہاں یہ میوے حکومت نے خریدے اور انہیں نیشنل مارکیٹ میں پہنچادیا ۔ لیکن آج ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے ۔اس حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ سڑے اور پہلے سے گرے سیبوں کو جمع کرکے لوگ انہیں ڈبوں میں بھر کر دہلی اور دوسری ریاستوں کو لے جاتے ہیں ۔ یہ ایسے سیب ہیں جو دو چار سال پہلے یا تو پھینک دئے جاتے تھے یا ان میں سے قدرے بہتر سیب الگ کرکے ان کا جوس نکالا جاتا تھا ۔ حکومت ایک دو روپے کلو کے حساب سے ایسے سیب خرید کر ان سے جوس نکالتی تھی ۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ایسے خراب سیب بھی ڈبوں میں بھر کر منڈیو میں پہنچائے جاتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے سیب بہت کم قیمت پر فروخت کئے جاتے ہیں ۔ یہ خریداروں کے ساتھ سراسر دھوکہ اور فریب ہے ۔ اس وجہ سے سیبوں کی یہی قیمت مقرر ہوجاتی ہے جس قیمت پر سڑے سیب فروخت کئے جاتے ہیں ۔ ہمارے لئے تعجب کی بات یہ ہے کہ حکومت خاص کر ہارٹی کلچر اور ایسے ہی دوسرے متعلقہ محکمے بڑی خاموشی سے ان بے ضابطگیوں کا تماشہ دیکھتے ہیں ۔ انتظامیہ مقامی بازاروں کی آئے روز چیکنگ کرکے ہزاروں روپے کے خراب میوے پھینک دیتی ہے ۔ لیکن جو لوگ دن دہاڑے سڑے میوے ڈبوں میں بھر کر باہر کی منڈیوں میں لے جاتے ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ حکام ان بے ضابطگیوں سے باخبر نہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ ٹرکوں اور لوڈ کیریروں پر لائوڈ اسپیکر نصب کرکے ان گرے اور سڑے میووں کو خریدا جاتا ہے ۔ ایسے میوے خریدنا بلا وجہ نہیں ۔ بلکہ ان میووں کو اصل اور بہتر میووں کے مارک دے کر فروخت کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیبوں کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے ۔ جہاں گفٹ پیکٹ اور نمبر ون سیب ایک دوہزار میں فروخت ہونے کی امید تھی اسی منڈی اور بازار میں چوتھے درجے کے سڑے ہوئے سیب چار پانچ سو روپے میں فروخت کئے جاتے ہیں ۔ کون نادان ایسا ہوگا جو پانچ سو کے سیبوں کی موجودگی میں دو ہزار کا ڈبہ یا پیٹی خریدے گا ۔ ہر کوئی کم قیمت کے سیب خریدنا ہی پسند کرتا ہے ۔ اس وجہ سے ایسے کسان گھاٹے سے دو چار ہوتے ہیں جنہوں نے پورا سال محنت کرکے اپنے میووں کو اعلیٰ کوالٹی کا بنایا ہو ۔ لیکن یہاں کوالٹی کون دیکھتا ہے ۔ قیمت کے حساب سے خریداری کی جاتی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ ان مسائل پر توجہ دے کر میوہ انڈسٹری کو تباہ ہونے سے بچائے ۔