حکومت نے اس بات کا سخت نوٹس لیا ہے کہ نجی اسکولوں میں فیس کے معاملے پر طلبہ کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے مبینہ طور کی گئی شکایت پر کاروائی کرتے ہوئے اسکول مالکان کو وارننگ دی گئی کہ طلبہ کو ہراساں کرنے سے باز رہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے سے نجی اسکولوں پر شکنجہ کستے ہوئے حکومت نے ان اسکولوں کے مالکان اور سربراہوں کو خبردار کیا کہ اپنے طور طریقے میں بہتر تبدیلی لائیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ کئی اسکولوں میں طلبہ خاص کر طالبات کو کلاسوں میں اس وجہ سے جانے سے روک دیا گیا کہ ان کی کچھ مہینوں کی فیس بقایا تھی ۔ اسی طرح کئی طالبات نے شکایت کی کہ فیس جمع کرنے کے حوالے سے انہیں بے عزت کیا گیا ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ایسے بیشتر طلبہ سخت ڈپریشن کا شکار بتائے جاتے ہیں ۔ حکومت نے یقین دلایا کہ اس طرح کی حرکات کو برداشت نہ کرتے ہوئے ایسے اسکولوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔
نجی اسکولوں کے لئے تعلیم محض ایک تجارت ہے ۔ ان اسکول مالکان نے اپنے سرمایہ کا بیشتر حصہ نفع حاصل کرنے کی غرض سے انوسٹ کیا ہے ۔ ان کی ساری نظریں فیس وصول کرنے پر لگی ہوتی ہیں ۔ یہ ایک یا دوسرا مد تلاش کرکے طلبہ کے والدین سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دوران ممکن ہے کہ کئی اداروں کے اندر طلبہ کو معیاری تعلیم بھی فراہم کی جارہی ہو ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ کشمیر میں بیشتر پرائیویٹ اسکول اور ٹیوشن سنٹر نفع نقصان کے حوالے سے قائم کئے گئے ہیں ۔ اس دوران یہ بات بڑی اہم ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے کسی طور معیاری تعلیم فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ والدین ان سرکاری تعلیمی اداروں کے حوالے سے کوئی مثبت سوچ نہیں رکھتے ۔ یہاں غریبی کی ریکھا سے نیچے زندگی گزارنے والے والدین کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اعلیٰ طبقوں کے لوگ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کو تیار نہیں ۔ یہاں کا انفرا اسٹرکچر اور دوسری سہولیات اس معیار کی نہیں کہ کوئی لاڈلا بیٹا یہاں ٹھہرنا اپنے لئے پسند کرے ۔ مجبور لوگ ہی اپنے بچوں کو یہاں داخل کراتے ہیں ۔ ان کے لئے مفت کھان ، مفت وردی اور مفت کتابیں راحت کا باعث ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے والدین اپنے بچوں کو یہاں داخل کرتے ہیں ۔ سرکار اور وہاں کام کرنے والے اساتذہ اس بات سے باخبر ہوتے ہیں اور والدین کی بے بسی کا بڑے پیمانے پر استحصال کرتے ہیں ۔ ان بھوکے ننگے بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے مختلف فضول سرگرمیوں میں مصروف رکھ کر دن گزارے جاتے ہیں ۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پچاس فیصد کے لگ بھگ اساتذہ الیکشن کام کے ساتھ مصروف ہیں ۔ ووٹر فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے ان اساتذہ کو اسکولوں سے چھٹی دی گئی ہے اور گھر گھر جاکر نئے ووٹر فہرست تیار کرنے کو کہا گیا ہے ۔ باضابطہ آڈر نکال کر اساتذہ کو اسکولوں کے بجائے فیلڈ میں کام کرنے کے احکامات دئے گئے ہیں ۔ اس وجہ سے مبینہ طور کئی سو اسکولوں کے بند رہنے کا خدشہ ہے ۔ پرائمری سطح کے جن اسکولوں میں کام کرنے والے دو یا تین اساتذہ الیکشن کے کام میں لگادئے گئے ہیں ظاہر ہے کہ وہاں تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جائیں گی ۔ پھر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سرکاری اساتذہ بھی اسکولوں کے بجائے دوسرے کام انجام دینا پسند کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے درجنوں اساتذہ کو ریونیو ڈپارٹمنٹ کی خدمت کرنے اور وہاں جمعبندی کا کام انجام دینے پر تعینات کیا گیا ہے ۔ اس صورتحال کے اندر ظاہر ہے کہ نجی اسکولوں کو طلبہ کا اندراج کرانے میں مدد ملے گی ۔ درس و تدریس کا کام عملی طور سرکاری اسکولوں میں مفلوج ہے اور یہ کام صرف نجی اسکولوں میں ہورہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے بجائے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرانا پسند کرتے ہیں ۔ ایسے سارے والدین سرمایہ دار نہیں ہوتے ۔ بلکہ اپنے بچوں کے بارے میں دیکھے گئے خواب پورا کرنے کے لئے غریب والدین بھی نجی اسکولوں کو فوقیت دیتے ہیں ۔ لیکن یہاں ان کا استحصال کرکے ان پر ایسا مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے جو ان کی سکت سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ یہی والدین شکایت کرتے ہیں کہ نجی اسکولوں میں بے جا اخراجات کے لئے ان سے پیسے وصول کئے جاتے ہیں ۔ یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے جو اکثر سامنے آتا ہے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سرکاری نظام چلانے کے لئے بڑے پیمانے پراساتذہ کو لگادیا جاتا ہے ۔ سرکاری تقریبات کا انعقاد اساتذہ کے سلیبس کا حصہ بن گیا ہے ۔ اس کا اثر تعلیمی سرگرمیوں پر پڑتا ہے جس کا فائدہ نجی اسکولوں کو ملتا ہے ۔ یہ اسکول حد سے زیادہ پیسے وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔