• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home اداریہ

روزگار ، کونسلنگ اور حقیقت حال

Online Editor by Online Editor
2022-09-21
in اداریہ
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail

پچھلے کچھ عرصے سے حکومتی حلقوں میں اس بات کا بڑا چرچا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے کے لئے نئی اسکیموں سے باخبر کیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے خود روزگار کی اسکیموں کو متعارف کیا جارہاہے ۔ روزگار کے نئے وسائل تلاش کرنے کے لئے نوجوانوں کو جانکاری دی جاتی ہے ۔ کونسلنگ کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور روزگار کے نئے مواقع تلاش کئے جاتے ہیں ۔ جانکاری کے کیمپ لگانے کے علاوہ بڑے پیمانے پر میلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔ ان اسکیموں کے حوالے سے کئی طرح کے دعوے کئے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرانے میں آسانی پیدا کی جارہی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کوششوں سے کئی سو نوجوانوں کو روزگار میسر کیا گیا ۔ اس دوران حکومت نے مبینہ طور ملکی اور بیرون ملک کئی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرکے روزگار کے نئے مواقع تلاش کئے ہیں ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے موقعے تلاش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ اس ذریعے سے نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور انہیں روزگار فراہم کرنے میں کہاں تک مدد ملے گی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔
دنیا میں اس وقت روزگار کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ غریب ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی روزگار کے مسائل سامنے آرہے ہیں ۔ کئی ممالک کی کوشش ہے کہ بیرون ملک سے ماہرین بلانے کے بجائے اپنے شہریوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کئے جائیں ۔ جہاں کل تک یہ صورتحال تھی کہ نوجوان بغیر کسی محنت کے سرکاری قظیفے یا تجارتی منافعے پر عیش کی زندگی گزارتے تھے ۔ آج حالت یہ ہے کہ نوجوانوں کے لئے بنیادی ضروریات فراہم کرنا مشکل ہے ۔ ایسے کئی ممالک نے بیرون ملک کے شہریوں کو رخصت کرکے اپنے ملک کے نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر بے روزگاری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ جموں کشمیر میں صورتحال اس سے ہر گز مختلف نہیں ہے ۔ بلکہ پورے ملک میں یہاں سب سے زیادہ بے روزگاری پائی جاتی ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر موجود نہ ہونے اور بیشتر قدرتی وسائل حکومت کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے بے روزگاروں کے لئے روزگار تلاش کرنا مشکل ہورہاہے ۔ حکومت کا یہ مشورہ کہ نوجوان اپنا روزگار آپ کمانے کی کوشش کریں یہاں کسی کو ہضم نہیں ہوتا ۔ کشمیر میں روزگار کے ھوالے سے واحد تصور یہ کہ سرکاری نوکری کے بغیر روزگار کا کوئی بھی وسیلی پائیدار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری سیکٹر میں نوکری ایک آرام دہ اور مضبوط ذریعہ معاش ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگ سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑے ہیں ۔ اس کے بغیر کسی دوسرے ذریعے کو روزگار کا وسیلہ مانا ہی نہیں جاتا ہے ۔ سرکار کچھ بھی مشورہ دے اور لوگوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنے میں اپنی دشواریوں کا رونا روئے ۔ اس کے باوجود لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ سرکاری نوکری کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میںروزگار تلاش کریں ۔ ایسی سرکار چاہئے تعمیر و ترقی کا کتنا بھی کام انجام دے لیکن نوکریاں فراہم نہ کرے تو ایسی سرکار کو ناکام سرکار مانا جاتا ہے ۔ نوکریاں فراہم کرنے والی سرکار کو پسند کیا جاتا ہے اور اسے کامیاب سرکار قرار دیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں فراہم کرنے کے لئے کی جانے والی کونسلنگ کو ہر گز پسند نہیں کیا جاتا ۔ ہم مانتے ہیں کہ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان نجی سیکٹر میں روزگار تلاش کریں ۔ دنیا میں یہی کچھ ہورہاہے ۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ سرکاری ملازمت ہی روزگار کاواحد وسیلہ سمجھا جاتا ہے ۔ بصورت دیگر نوجوان کو بے روزگار ہی مانا جاتا ہے ۔ نجی سیکٹر میں کام کرنے والا نوجوان چاہئے کتنا زیادہ کماتا ہو ۔ اس کے پاس کار ، بنگلہ اور بینک بیلنس بھی کیوں نہ ہو اسے بے روزگار مانا جاتا ہے ۔ کسی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر کام کرنے والے شخص کو سرکاری سیکٹر کے چپراسی سے بھی کم پایے کا آدمی سمجھا جاتا ہے ۔ لوگ پرائیویٹ کمپنی کا منیجر ہونے سے زیادہ سرکاری دفتر میں چپراسی ہونا پسند کرتے ہیں ۔ یہاں تنخواہ زیادہ اور کام اپنی مرضی سے کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی خاص دبائو نہیں رہتا ۔ جوابدہی کا خوف بھی نہیں ۔ اس کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں سخت نگرانی میں رہنا پڑتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر میں سرکاری نوکری کوہی روزگار سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے باقی سب کچھ ہیچ ہے ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

مرکزی دھارے کی میڈیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ مرکزی دھارے کی میڈیاکےاپنے چینل ہیں:انوراگ ٹھاکر

Next Post

گھریلو تشدد کی نوعیت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے

Online Editor

Online Editor

Related Posts

موسمیاتی چیلنجز اور حکومتی تیاریاں

2024-12-25

خالی ٹریجریاں

2024-12-11

بغیر آب کے آبی ٹرانسپورٹ کا خواب

2024-12-10

ایک ہی سرکار کے دو الگ الگ  اجلاس

2024-12-04

پولیس بھرتی کے لئے امتحان

2024-12-03

370 کے علاوہ مسائل اور بھی ہیں

2024-11-30

کانگریس کا اسٹیٹ ہڈ بحال کرنے پر زور

2024-11-28
دس لاکھ حجاج کیلئے حج 2022 کی تمام تر تیاریاں مکمل

حج کمیٹی نے حج 2025 کی دوسری قسط کی ادائیگی کی آخری تاریخ کا اعلان کر دیا

2024-11-28
Next Post
خواتین۔ گھریلو تشدد اور خاندان کا ردعمل

گھریلو تشدد کی نوعیت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan