پچھلے کچھ عرصے سے حکومتی حلقوں میں اس بات کا بڑا چرچا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے کے لئے نئی اسکیموں سے باخبر کیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے خود روزگار کی اسکیموں کو متعارف کیا جارہاہے ۔ روزگار کے نئے وسائل تلاش کرنے کے لئے نوجوانوں کو جانکاری دی جاتی ہے ۔ کونسلنگ کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور روزگار کے نئے مواقع تلاش کئے جاتے ہیں ۔ جانکاری کے کیمپ لگانے کے علاوہ بڑے پیمانے پر میلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔ ان اسکیموں کے حوالے سے کئی طرح کے دعوے کئے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرانے میں آسانی پیدا کی جارہی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کوششوں سے کئی سو نوجوانوں کو روزگار میسر کیا گیا ۔ اس دوران حکومت نے مبینہ طور ملکی اور بیرون ملک کئی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرکے روزگار کے نئے مواقع تلاش کئے ہیں ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے موقعے تلاش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ اس ذریعے سے نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور انہیں روزگار فراہم کرنے میں کہاں تک مدد ملے گی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔
دنیا میں اس وقت روزگار کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ غریب ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی روزگار کے مسائل سامنے آرہے ہیں ۔ کئی ممالک کی کوشش ہے کہ بیرون ملک سے ماہرین بلانے کے بجائے اپنے شہریوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کئے جائیں ۔ جہاں کل تک یہ صورتحال تھی کہ نوجوان بغیر کسی محنت کے سرکاری قظیفے یا تجارتی منافعے پر عیش کی زندگی گزارتے تھے ۔ آج حالت یہ ہے کہ نوجوانوں کے لئے بنیادی ضروریات فراہم کرنا مشکل ہے ۔ ایسے کئی ممالک نے بیرون ملک کے شہریوں کو رخصت کرکے اپنے ملک کے نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر بے روزگاری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہاہے ۔ جموں کشمیر میں صورتحال اس سے ہر گز مختلف نہیں ہے ۔ بلکہ پورے ملک میں یہاں سب سے زیادہ بے روزگاری پائی جاتی ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر موجود نہ ہونے اور بیشتر قدرتی وسائل حکومت کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے بے روزگاروں کے لئے روزگار تلاش کرنا مشکل ہورہاہے ۔ حکومت کا یہ مشورہ کہ نوجوان اپنا روزگار آپ کمانے کی کوشش کریں یہاں کسی کو ہضم نہیں ہوتا ۔ کشمیر میں روزگار کے ھوالے سے واحد تصور یہ کہ سرکاری نوکری کے بغیر روزگار کا کوئی بھی وسیلی پائیدار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری سیکٹر میں نوکری ایک آرام دہ اور مضبوط ذریعہ معاش ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگ سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑے ہیں ۔ اس کے بغیر کسی دوسرے ذریعے کو روزگار کا وسیلہ مانا ہی نہیں جاتا ہے ۔ سرکار کچھ بھی مشورہ دے اور لوگوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنے میں اپنی دشواریوں کا رونا روئے ۔ اس کے باوجود لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ سرکاری نوکری کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میںروزگار تلاش کریں ۔ ایسی سرکار چاہئے تعمیر و ترقی کا کتنا بھی کام انجام دے لیکن نوکریاں فراہم نہ کرے تو ایسی سرکار کو ناکام سرکار مانا جاتا ہے ۔ نوکریاں فراہم کرنے والی سرکار کو پسند کیا جاتا ہے اور اسے کامیاب سرکار قرار دیا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں فراہم کرنے کے لئے کی جانے والی کونسلنگ کو ہر گز پسند نہیں کیا جاتا ۔ ہم مانتے ہیں کہ وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان نجی سیکٹر میں روزگار تلاش کریں ۔ دنیا میں یہی کچھ ہورہاہے ۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ سرکاری ملازمت ہی روزگار کاواحد وسیلہ سمجھا جاتا ہے ۔ بصورت دیگر نوجوان کو بے روزگار ہی مانا جاتا ہے ۔ نجی سیکٹر میں کام کرنے والا نوجوان چاہئے کتنا زیادہ کماتا ہو ۔ اس کے پاس کار ، بنگلہ اور بینک بیلنس بھی کیوں نہ ہو اسے بے روزگار مانا جاتا ہے ۔ کسی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر کام کرنے والے شخص کو سرکاری سیکٹر کے چپراسی سے بھی کم پایے کا آدمی سمجھا جاتا ہے ۔ لوگ پرائیویٹ کمپنی کا منیجر ہونے سے زیادہ سرکاری دفتر میں چپراسی ہونا پسند کرتے ہیں ۔ یہاں تنخواہ زیادہ اور کام اپنی مرضی سے کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی خاص دبائو نہیں رہتا ۔ جوابدہی کا خوف بھی نہیں ۔ اس کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں سخت نگرانی میں رہنا پڑتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر میں سرکاری نوکری کوہی روزگار سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے باقی سب کچھ ہیچ ہے ۔
