غلام نبی آزاد نے کانگریس سے مکمل آزادی حاصل کرکے نئی پارٹی تشکیل دی ۔ اس طرح سے انہوں نے نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ ان کا نیا سفر کیسا رہے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ تاہم اندازہ یہ ہے کہ آنے والا وقت ان کے لئے بہت ہی کٹھن ہوگا ۔ کانگریس میں رہ کر انہیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی ۔ انہوں نے جب کانگریس جوئن کیا تو پارٹی پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی ۔ نہرو کے بعد اندرا گاندھی کا ہر طرف چرچا تھا ۔ اندرا جی نے پورے سیاسی منظر کو اپنی مٹھی میں لیا تھا ۔ اس کا فائدہ غلام نبی آزاد سمیت ان کے زمانے کے کانگریسی لیڈروں کو ملا ۔ یہاں تک کہ آزاد ایوان اقتدار تک پہنچے ۔ اقتدار میں رہنے کے علاوہ آپ نہرو خاندان کے بہت قریب آگئے ۔ اس دوران کانگریس کی سیاست پر گرفت کمزور پڑگئی اور بی جے پی نے عوام اور انتظامیہ پر قبضہ حاصل کرکے دوسرے تمام سیاسی حلقوں کو منظر نامہ سے ہٹادیا ۔سب سے زیادہ دھچکہ کانگریس کو لگا اور اقتدار کے عادی لیڈر ایک ایک کرکے پارٹی سے علاحدہ ہوگئے ۔ علاحدگی اختیار کرنے والوں میں غلام نبی آزاد بھی شامل ہیں ۔ بلکہ ان کی قیادت میں تین درجن کے قریب کانگریسی رہنمائوں نے نہرو خاندان کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ۔ بغاوت کرنے والوں نے الزام لگایا کہ پارٹی میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور فیصلہ کرتے وقت انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا ۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ایسی سیاسی جماعتوں میں فیصلے صلاح مشورے سے نہیں بلکہ اندرون خانہ لئے جاتے ہیں ۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ساز ش کے تحت G 30 کے ان رہنمائوں نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کی ۔ سازش کا سرغنہ آزاد کو ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ بی جے پی نے پچھلے کئی سالوں کے دوران بیشتر سیاسی جماعتوں کا کریک ڈاون کرکے ایک واحد پارٹی کے طور ملک کے اقتدار کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی ۔ آپریشن لوٹس کا نام دے کر اس سازش کو حکومت کا بڑا سیاسی دائو بتایا جاتا ہے ۔ آزاد کی سیاسی دل بدلی کو اسی کا حصہ قرار دیا جاتا ہے ۔
آزاد سے پہلے جموں کشمیر میں مفتی محمد سعید نے بھی اسی طرح پہلے کانگریس سے بغاوت کی ۔ جنتا دل میں جانے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنائی ا ور وزارت اعلیٰ تک پہنچ گئے ۔ مفتی سعید نے جب ملکی سیاست کو چھوڑ کر علاقائی پارٹی بنانے کے فیصلہ کیا اس وقت کے حالات مفتی کے حق میں تھے ۔ کشمیر میں مین اسٹریم سیاست بندوق کی نوک پر خاموش کی گئی تھی ۔ عوام کو کوئی سیاسی سرپرستی حاصل تھی نہ مرکز کے حق میں کوئی آواز اٹھانے کو تیار تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر سے دہلی تک ہر کسی نے مفتی سعید کے فیصلے کی تائید کی اور آپ پہلی بار عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس طرح انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر اپنے آخری سانس تک اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیابی حاصل کی ۔ آزاد کا خیال ہے کہ وہ بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہونگے۔ لیکن حالات کا جائزہ لینے والے اس حق میں نہیں ہیں کہ کوئی ایسا دائو پیچ کامیاب رہے گا ۔ مفتی مرحوم کے زمانے میں لوگ مایوسی کا شکار تھے اور کوئی سیاسی معاونت چاہتے تھے ۔ موجودہ مرحلے پر عوام انتشار کے بجائے سیاسی اتحاد کے حق میں ہیں ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ مقامی سیاسی دان اکٹھے ہوکر ایک طاقت کی صورت میں کھڑا ہوجائیں ۔ نئی سیاسی جماعتوں کو حمایت دینے سے گریز کیا جارہاہے ۔ عوام کا خیال ہے کہ مرکز کشمیریوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے نئی سیاسی پارٹیوں کو تشکیل دے رہاہے تاکہ یہ دہلی کے اقتدار کا چیلنج ن کرپائیں ۔ ایسا سوچنا صحیح ہے یا غلط الگ معاملہ ہے ۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ الگ الگ سیاسی حلقوں کو عوام پسند نہیں کرتے ہیں ۔ عوام ایک مضبوط اور مربوط اتحاد کے حق میں ہیں ۔ مرکزی جماعتوں کا واقعی یہاں کوئی وجود نہیں ۔ کچھ لوگ اچھل کود ضرور کرتے ہیں ۔ تاہم یہ کسی طاقت کی صورت میں ابھر نہیں پاتے ۔ ان کی ہوا کسی بھی وقت نکل سکتی ہے ۔ آزاد یقینی طور کانگریس کے سینئر لیڈروں کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے نہرو خاندان کو چیلنج کیا ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کوئی نیا ایجنڈا تشکیل دینے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ ایسا کوئی نعرہ ان کے پاس نہیں جو لوگوں کے اندر کوئی ہلچل پیدا کرسکے ۔ کانگریس پہلے مقبول تھا نہ اب ہے کہ اس کے خلاف بغاوت لوگوں کے اندر ہلچل پیدا کرسکے ۔ مرکز میں بھی کانگریس سے بغاوت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ مرکزی سرکار کو اس وقت کیجریوال ، مایاوتی اور اسی صف کے لیڈروں سے چیلنج درپیش ہے ۔ اس وجہ سے آزاد ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ نہ آزاد پارٹی عوام کے لئی کسی کشش کا باعث ہے ۔ تاہم آزاد سیاست کے دیرینہ کھلاڑی ہیں ۔ وہ کسی بھی وقت کوئی دائو کھیل کر پانسہ اپنے حق میں پلٹ سکتے ہیں ۔