پڈوچیری میں بجلی کی نجکاری کے خلاف پچھلے ایک ہفتے سے احتجاج جاری ہے ۔ سرکار نے پڈوچیری کے حوالے سے اچانک اعلان کیا کہ پاور سیکٹر کو نجی ہاتھوں میں دیا جارہاہے ۔ اس پر وہاں محکمہ بجلی کے ملازموں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ۔ اس دوران جموں کشمیر کے محکمہ بجلی کے ملازموں خاص کر انجینئر وں کی یونین نے پڈوچیری میں احتجاج کررہے ملازمین کے ساتھ یکجہتی دکھاتے ہوئے احتجاج کیا ۔ اس احتجاج کو کامیاب قرار دیتے ہوئے یونین لیڈروں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔ جموں کشمیر میں کئے گئے احتجاج کو حکومت سنجیدگی سے لیتی ہے کہ نہیں ۔ یہ الگ سوال ہے ۔ تاہم یہ پہلی بار ہوا کہ ملک کے کسی حصے میں بجلی سیکٹر کے حوالے سے لئے گئے فیصلے پر جموں کشمیر میں ملازموں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ کشمیرکے ملازم پڈوچیری میں اپنے ساتھی ملازموں کے مفادات کی حفاظت کے لئے احتجاج پر اتر آئے ہیں ۔ یقینی طور آئندہ عوامی یا ملازموں کے مفاد کے خلاف فیصلہ لیتے ہوئے اس احتجاج کومدنظر رکھا جائے گا ۔ پڈوچیری اسی طرح ایک یونین ٹیریٹری ہے جس طرح جموں کشمیر کو یو ٹی قرار دیا گیا ہے ۔ بجلی ملازموں کا کہنا ہے کہ پڈوچیری میں نجکاری کا فیصلہ قبول کیا گیا تو جلد ہی ایسے دوسرے علاقوں میں یہی کیا جائے گا ۔ شاید یہی سوچ کر جموں کشمیر پائو رسیکٹر کے ملازموں نے پڈوچیری کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اس پر احتجاج کیا ۔
بجلی کی نجکاری صرف دہلی یا پڈو چیری تک محدود نہیں رہے گی ۔ بلکہ اس کے اثرات سارے ملک پر پڑنے کا اندازہ ہے ۔ خاص طور سے جموں کشمیر میں اس حوالے سے پہلے ہی منصوبہ سازی کی جاچکی ہے ۔ محکمہ بجلی میں کام کررہے انجینئر پہلے ہی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اس دوران اس طبقے کی طرف سے کئی بار حکومت پر دبائو ڈالا گیا کہ بجلی کی نجکاری کے فیصلے کو تبدیل کیا جائے ۔ لیکن حکومت تاحال اپنے فیصلے پر قائم ہے ۔ اگرچہ ابھی حتمی فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ فیصلہ بہت پہلے لیا جاچکا ہے ۔ اب اعلان کرنا باقی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی کے کھپت بڑھ چکی ہے اور اس پر سخت خسارا اٹھانا پڑتا ہے ۔ عوام بڑے پیمانے پر بجلی کا استعمال کرتے ہیں لیکن فیس دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے حکومت کا خسارے کا سامنا ہے ۔ خسارے سے بچنے کے لئے اسے نجی ہاتھوں میں دیا جارہا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ نجی کمپنیاں بجلی کے نظام کو درست کرکے خسارے کے بجائے فائدہ ملنے کی امید کرتی ہیں ۔ لیکن سرکار ایسا فائدہ حاصؒ کرنے میں ناکام ہورہی ہے ۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین بجلی چوری کرکے بجلی محکمے کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہیں ۔ عوام پر لگائے گئے اس الزام کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس میں جتنا صارفین کا ہاتھ ہے اس سے کہیں زیادہ بجلی ملازموں کے ایک بڑے طبقے کی مدد بھی شامل ہے ۔ ایسے ملازم یہاں کے ہر سرکاری محکمے میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن بجلی محکمہ ان سے قریب قریب بھرا پڑا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ محکمے میں تیسرے اور چوتھے درجے کے جتنے بھی ملازم پائے جاتے ہیں سب کے سب چور دروازوں سے لائے گئے ہیں ۔ ایک بھی ایسا لائن میں یا میٹر ریڈر نہیں جس کی تقرری شفاف طریقے سے عمل میں لائی گئی ہو ۔ کوئی کسی پرانے ملازم کا بیٹا یا داماد ہے ۔ کوئی کسی انجینئر کے گھر کام کرنے ولا مزدور ہے اور کوئی کسی سیاست دان کے جلسوں میں نعرے لگانے والا غنڈہ ہے ۔ اسی حیثیت کے مالک لوگ محکمہ بجلی کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں محکمے کی کیسی خدمت ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ ایسے ملازمین کے ہاتھ باندھنا یا لگام کسنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ ان سے بہتری کے کام کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ دیکھ کر کسی بھی شخص کا خون جل سکتا ہے کہ ایک ایرا غیرا محکمے میں آکر کئی ہزار روپے بطور تنخواہ اور اس سے زیادہ رقم رشوت کے طور کماتا ہے ۔ دوسری طرف یہی شخص ایک صارف سے دیانت داری اختیار کرنے کا درس دیتا ہے ۔ اس کی باتوں پر عمل کرکے کوئی بجلی چوری سے دور رہے گا ممکن نہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکار اپنے ملازموں کو بجلی چوری کم کرانے کے لئے استعمال نہیں کرسکی تو یہ حکومت کی ناکامی ہے اور کچھ نہیں ۔ اس کی سزا صارفین کو دینا اور بجلی سیکٹر کو نجی ہاتھوں میں دینا سراسر ناانصافی ہے ۔ اس طرح سے حکومت اپنی ناکامی کو چھپاکر عوام کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑنا چاہتی ہے ۔ سرکار عوام کو آرام پہنچانے کے لئے بنائی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس سرکار عوام کو تکلیف دے ایسی پالیسی عوام دشمن پالیسی مانی جاتی ہے ۔ محکمہ بجلی کی انجینئر یونین پچھلے طویل عرصے سے سرکار کو یہی سمجھا رہی ہے کہ نجکاری کا فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ نقصان کا باعث ہوگا ۔ عوام اس درمیان مایوس ہوکر خاموش ہوگئے ہیں ۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں کہ کوئی ا س پر بات نہ کرے ۔ ملازموں کو اس پالیسی پر احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ عوام کو بھی منہ کھولنے کی ضرورت ہے ۔ لڑائی جھگڑے کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لینا ضروری ہے ۔
