حکومت نے جمعرات سے بیک ٹو ولیج پروگرام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جموں کشمیر کے تمام 20 اضلاع میںپروگرام کا انعقاد ہوگا ۔ ابتدائی مرحلے پر مبینہ طور 896 اعلیٰ سرکاری آفیسروں کو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں ۔ پروگرام کے تحت آئی اے ایس اور کے اے ایس رینک کے یہ آفیسر مختلف دیہات میں جاکر وہاں لوگوں کے مطالبات سنیں گے اور پہلے سے یہاں جاری کام کا جائزہ لیں گے ۔ عوام کو دفتروں میں لانے کے بجائے ان کے ہاں جاکر وہاں ان کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے گا اور موقع پر ہی احکامات صادر کئے جائیں گے ۔ اس طرح سے عوام اور آفیسروں کا براہ راست رابطہ کرکے عوام کا اعتماد بڑھانے کی کوششوں کو تقویت دی جائے گی ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے عوام کو سہولیات میسر آئیں گی ۔
بیک ٹو ولیج پروگرام کا اصل مقصد عوام کو شہروں میں مقیم آفیسروں تک پہنچنے میں حائل رکاوٹوں سے نجات دلانا ہے ۔ دور دراز دیہات کے رہنے والے لوگوں کو اپنے مسائل حل کرانے کے لئے سیکریٹریٹ اور دوسرے دفتروں تک پہنچنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان مشکلات کو دور کرنے اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے بیک ٹو ولیج پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت مختلف محکموں کے سربراہ اور ان کا ماتحت عملہ منتخب دیہات میں جاکر وہاں دو تین دن ٹھہر کر عوام سے رابطہ کرتے ہیں ۔ ان کی ضروریات کا جائزہ لیتے ہیں اور موقع پر ہی اس حوالے سے متعلقہ حکام کو احکامات دیتے ہیں ۔ طبی ، تعلیمی ، آمد رفت ، راشن ، بجلی اور اسی طرح کی بنیادی سہولیات کے حوالے سے لوگوں کو سخت دشواریوں کا سامنا رہتا ہے ۔ اب تک دیکھا گیا ہے کہ مقامی ملازموں یا ذمہ داروں سے رابطہ کرنے سے ایسی دشواریاں دور نہیں ہوتی ہیں ۔ بیشتر موقعوں پر مقامی اور چھوٹے درجے کے ملازم اعلیٰ حکام سے فرمان لکھ کرلانے کو کہتے ہیں ۔ بہت کم لوگ اس طرح کی دوڑ دھوپ کرکے اپنے مسائل حل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ پھر ایسے دفاتر میں لال فیتی کا جو نظام پایا جاتا ہے وہ اس طرح کا مقصد حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کے بجائے اکثر مسائل کو الجھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ بہت سے لوگ تھک ہار کر اپنے مسائل درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس وجہ سے بیشتر لوگ مقامی ملازموں کو رشوت دے کر اپنے مسائل حل کرانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی پیچیدگیاں دور کرانے کے لئے حکام کو شہروں اور اپنے دفتروں سے نکل کر گائوں دیہات پہنچنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ تاکہ بیک ٹو ولیج جاکر گائوں میں وہ سب سہولیات بہم پہنچائی جائیں جو شہروں اور قصبوں کو آسانی سے مل جاتی ہے ۔ شہروں میں رہنے والے لوگوں کو حکام تک آسان رسائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بجائے دور دراز کے دیہات کے عوام کو اپنے حکام تک پہنچنے میں کافی پیسہ اور وقت خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ بیک ٹو ولیج پروگرام سے اس طرح کی مشکلات سے نجات حاصل ہونے کی امید کی جاتی تھی ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ پچھلے تین ایسے پروگرام لوگوں کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہے ۔ اس پروگرام کو مکمل طور ناکام بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ تاہم جو امید کی جاتی تھی ایسی امیدیں بھی پوری نہیں ہوئیں ۔ آج سے سرکار اس نوعیت کا چوتھا مرحلہ شروع کررہی ہے ۔ پچھلے تین ایسے پروگراموں کا جائزہ لیا جائے تو ان سے گائوں والوں کو بہت زیادہ سہولیات بھی نہ ملیں ۔ اس وجہ سے گائوں والوں اور سرکاری محکموں کو اپنے آفیسروں کے طعام وقیام کی زیادہ فکر لگی رہتی ہے ۔ سیکریٹری اور ڈائریکٹر سطح کا کوئی آفیسر کسی دوردراز گائوں میں آجائے اور پھر ایک دو راتیں وہاں قیام کرے ظاہر سی بات ہے کہ نچلی سطح کے ملازموں کو اس کے لئے خاطر خواہ انتظامات کرنا پڑتے ہیں ۔ یوں تو اس طرح کے پروگرام کا سارا انتظام RDD محکمے کو کرنے کے احکامات دئے جاتے ہیں ۔ بلاک آفسوں سے اس مد کے تحت کافی رقم خرچ بلکہ ہڑپ بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن زمینی سطح پر سارا انتظام وہاں کے نمبردار یا پنج سرپنجوں کو کرنا پڑتا ہے ۔ سب سے زیادہ اذیت ان ٹھیکہ داروں کو اٹھنا پڑتی ہے جو بلاک آفیسوں سے مختلف نوعیت کے چھوٹے بڑے کام کرتے ہیں ۔ ان غریب ٹھیکہ داروں کو نہ صرف لوگوں کو جمع کرانے کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ وہاں آنے والے درجنوں ملازموں کے کھانے پینے کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ لوگ بیک ٹو ولیج کو اپنے لئے بڑی پریشانی سمجھتے ہیں ۔انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ اس کے عوض ان کے نام ٹھیکے الاٹ کرانے کا وعدہ کیاجاتا ہے ۔ حالانکہ بہت کم ایسا ہوا کہ اس پروگرام کے تحت کچھ زیادہ کام انجام دئے گئے ۔ اب کی بار امید کی جاتی ہے کہ پروگرام محض کمپنی کے ایڈواٹائز کے لئے نہیں بلکہ عوام کے فائدے کے لئے منعقد کیا جائے گا ۔
