لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری دفتروں میں رشوت وصول کرنے کے علاوہ لوگوں کے معاملات نمٹانے میں بلا وجہ وقت ضایع کیا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسائل حل کرنے میں دیری کرنا رشوت لینے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ لوگوں کو ان کا حق بغیر کسی دین کے اور وقت ضایع کئے بغیر ملنا چاہئے ۔ رشوت ستانی کے خاتمے کو اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے انہوں نے لوگوں کے مسائل ھل کرنے کے لئے طوالت سے اجتناب کرنے پر زور دیا ۔ انسداد رشوت ستانی کے اداروں کو اپنے کام کاج میں بہتری لانے کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیاکہ فرسودہ طریقوں کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ رشوت کے حوالے سے سخت اسٹینڈ لیتے ہوئے انہوں نے اس دھندے میں ملوث ملازموں کو برداشت کرنے سے انکار کیا ۔ یاد رہے کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد حکومت نے عوام کو یقین دلایا کہ سرکاری دفتروں کو رشوت ستانی سے پاک و صاف کیا جائے گا ۔ بعد میں وزیراعظم نے از خود کئی موقعوں پر تقریر کرتے ہوئے اس بات کا وعدہ کیا کہ رشوت سے پاک انتظامیہ فراہم کی جائے گی ۔ عوام کی خواہش ہے کہ انتظامیہ کو ہر صورت میں رشوت سے پاک کیا جانا چاہئے ۔
لیفٹنٹ گورنر نے پیر کو ویجی لنس بیداری مہم کا آغاز کرتے ہوئے تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ سرکاری ملازموں کو عوام دوست پالیسی اختیار کرنی چاہئے ۔ لیکن زمینہ صورتحال یہ ہے کہ دفتروں میں اب بھی رشوت کا لین دین جاری ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ بلکہ اعلیٰ سرکاری حکام ان حقایق سے پوری طرح سے واقف ہیں ۔ نچلی سطح سے لے کر سیکریٹریٹ تک ہر جگہ لوگوں کو اپنے مسائل حل کرانے کے لئے سخت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سائل اپنا مسئلہ کسی دفتر میں پہنچاکر اس اطمینان کے ساتھ گھر بیٹھ جائے کہ اس کا مسئلہ آج نہیں تو کل ضرور حل ہوجائے گا ۔ ایسا توقع کرنا ممکن نہیں ۔ بلکہ لوگوں کو لگاتار دفتروں کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں ۔ دفتروں میں بیٹھے سرکار ملازم سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ بلکہ سائل کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کا مسئلہ حل کرنا ہر گز اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ سرکار انہیں دفتر میں ڈیوٹی دینے کے عوض تنخواہ دیتی ہے ۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ اس کے الگ سے معاوضہ وصول کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے دفتروں پر اس حوالے سے کوئی قدغن نہیں ہے ۔ یہ ملازم کی اپنی خواہش اور منشا پر منحصر ہے کہ وہ کسی سائل کی مانگ پورا کرے یا نہ کرے ۔ حد تو یہ ہے کہ مسائل حل کرانے کے لئے سائل کو صحیح طریقہ کار بتانا بھی بار گراں محسوس ہوتا ہے ۔ کسی بھی دفتر میں جاکر سائل کو کئی دن یہ سمجھنے میں لگتے ہیں کہ اس کی فائل کہاں ہے اور کس ٹیبل پر ہونی چاہئے ۔ کئی ہفتے گزارنے کے بعد سائل سے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے مسئلے کی فائل غلط سیکشن میں پہنچائی ہے ۔ وہاں کا کلرک اسے جھڑکنے کے ساتھ ساتھ گنوار اور ان پڑھ قرار دیتا ہے ۔ بلکہ اول فول بک کر اسے سخت مایوس کرتا ہے ۔ اس طرح کا رواج صرف جموں کشمیر میں ہے ۔ رشوت کا چلن بہت سی دوسری جگہوں پر بھی پایا جاتا ہے ۔ جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے کئی علاقوں میں رشوت لینے کا مرض پایا جاات ہے ۔ لیکن کشمیر میں سائل کی جو بے عزتی کی جاتی ہے اس کا عکس کہیں اور نظر نہیں آتا ہے ۔ دوسری ریاستوں کے سرکاری دفتر میں کوئی شخص سو دو سو روپے رشوت دے تو پورا دفتر اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے اور اس کا کام جلدی سے نپٹایا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں ایک تو رشوت وصول کی جاتی ہے ساتھ میں صلواتیں بھی سنائی جاتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سائل دفتر میں اپنا جائز حق مانگنے نہیں بلکہ دفتری بابو سے اس کی جاگیر ہڑپ کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے دشمن کا روپ اختیار کرتے ہیں ۔ ویجی لنس ہفتہ منانا اپنی جگہ ۔ یقینی طور اس ذریعے سے ایک نازک مسئلے کے حوالے سے سرکاری ملازموں کو حساس بنایا جاسکتا ہے ۔ انہیں اپنا کام بہتر ڈھنگ سے انجام دینے کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن بوسیدہ نظام کو بس اسی سے عوام دوست نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اصل ذمہ دار حکام نے اپنی ذمہ دار چھوڑ کر کلرکوں کو پورے دفتر کا مالک بنایا ہوتا ہے ۔ آفیسر کو بغیر ہاتھ پیر ہلائے لاکھوں روپے ماہانہ اوپری آمدنی کے طور ملتے ہیں ۔ اس وجہ سے اس کی دفتری معاملات میں مداخلت صفر کے برابر ہوتی ہے ۔ رشوت ختم کرنے کے لئے جب تک بڑے آفیسروں کو جواب دہ نہ بنایا جائے حالات سدھرنا ممکن نہیں ہے ۔ کسی پٹواری یا پولیس اہلکار کو پکڑ کر نظام ٹھیک نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دفتر کے حاکم اعلیٰ کو جوابدہ بنایا جائے ۔ شروعات سیکریٹریٹ سے کی جائیں تو تبدیلی یقینی ہے ۔ بنیادی سطح پر کام ضروری ہے ۔ لیکن اصل مسئلہ بڑے آفیسروں کی نااہلی ہے ۔ویجی لنس بیداری اسی سطح پر ہونی چاہئے ۔
