حکومت نے ملک کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے میں انتھک محنت کی ۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر دبائو بنانے میں اس کی کوششیں بڑی کامیاب رہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہندوستان کے دفاعی نظام کو سراہا جارہاہے ۔ دفاع سے منسلک ادارے دعویٰ کررہے ہیں کہ اس حوالے سے بڑی کامیابی حاصل کی گئی ۔ بلکہ وزارت دفاع ، داخلہ اور خارجہ تینوں شعبے اطمینان کا اظہار کررہے ہیں ۔ وزیراعظم نے لوگوں کو اطمینان دلایا کہ ملک اب ہر لحاظ سے محفوظ ہے ۔ اس طرف سے اطمینان حاصل ہونے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ حکومت دوسری ضروریات پر توجہ مبذول کرے گی ۔ خاص طور سے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ بے روزگارپچھلے کچھ سالوں سے سخت مایوس ہیں ۔ حال ہی میں بے روزگاری کے حوالے سے ایک مدلل رپورٹ سامنے آئی ۔ رپورٹ میں ملک کی تمام ریاستوں میں پائی جانے والی بے روزگاری کی شرح فیصد بتائی گئی ہے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاری ہریانہ میں پائی جاتی ہے ۔ جبکہ چھتیس گڈھ میں سب سے کم بے روزگاری دیکھنے کو ملی ہے ۔ ہریانہ میں جہاں 37 فیصد سے زیادہ افراد بے روزگار ہیں ۔ چھتیس گڈھ میں اس کا آنکڑا 0.4 فیصد ہے ۔ اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جموں کشمیر ملک میں بے روزگاری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے ۔ اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکومت کو روزگار فراہم کرنے کے لئے کہاں کس قدر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
نوجوان ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ اس وقت بھی ملک میں سب سے فعال طبقہ نوجوانوں کا طبقہ ہے ۔ اس طبقے کو نظر انداز کرکے ملک کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ہے ۔ ایسی بھول کی گئی تو ملک کو ترقی دلانے کی دوسری کوششیں دیرپا ثابت نہیں ہونگی ۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ حکومت ہر شہری اور ہر ایک نوجوان کو روزگار فراہم کر سکے ۔ کسی بھی حکومت کے پاس اس کے لئے وسائل مہیا نہیں ہوتے ہیں ۔ خاص طور سے ترقی پذیر ممالک کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تاہم مہیا وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو آباد کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ قدرتی وسائل کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے ۔ ملک کا بیشتر سرمایہ چند ہاتھوں میں گروی رکھا گیا ہے ۔ اس وجہ سے عام شہریوں تک ان وسائل کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے ۔ ملک جب انگریزوں کی گرفت میں تھا تو غربت کے لئے حکمرانوں کو ذمہ دار بتایا جاتا تھا ۔ انگریزوں کو یہاں سے رخصت ہوئے ستھر سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا ۔ لیکن غریب طبقوں کی آباد کاری میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بعد میں باننے والی حکومتوں نے رشوت ستانی اور اقربا نوازی کو فروغ دے کر پسماندہ طبقوں کو استحصال کا شکار بنایا ۔ رشوت کو عام کرنے والے حکمرانوں کو عوام نے اقتدار سے الگ کیا اور دیانت داری اک دعویٰ کرنے والے سیاست دان اس وقت مسند اقتدار پر ہیں ۔ تاہم لوگ بڑے پیمانے پر راحت محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔ حکومت مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت پچھلے ستھر سالوں کے دوران سب سے زیادہ بے روزگاری پائی جاتی ہے ۔ اعداد و شمار کے علاوہ حالات بھی یہی بتارہے ہیں کہ بے روزگاری نے لوگوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ نوجوانوں خود کو سخت بے بس محسوس کررہے ہیں ۔ بے روزگاری کے شکار نوجوانوں کو زندگی گزارنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہاہے ۔ یہ نوجوان آخر جائیں تو کہاں جائیں ۔ حکومت ان کی مدد نہ کرے اور ان کا ہاتھ نہ تھام لے تو ان کے لئے خود کشی کے سوا کوئی دوسرا راستہ میسر نہیں ہے ۔ حکومت ان سے لاتعلق نظر آرہی ہے ۔ اتنے بڑے ملک کے اندر روزگار کے جو مواقع ہونے چاہئے وہ نظر نہیں آتے ۔ روزگار میں کمی کا براہ راست اثر تجارت اور دوسری سرگرمیوں پر پڑنے لگا ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر سکڑ رہاہے اور نجی سرگرمیاں محدود ہورہی ہیں ۔ ملک میں خود کشی کے معاملات میں آئے روز اضافہ ہورہاہے ۔ پچھلے سال کے دوران مبینہ طور 11 ہزار سے زائد لوگوں نے خودکشی کرکے زندگی کے جھمیلوں سے نجات حاصل کی ۔ یہ کسی بھی حکومت کے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ غربت سے تنگ آکر شہری خود کشی پر آمادہ ہوجائیں ۔ ایسے واقعات میں اضافہ نظر انداز کرنا صحیح سوچ نہیں ۔ حکومت عوام کے دکھوں اور مصیبتوں کا مداوا نہ کرپائے تو اس کو عوام دوست سرکار نہیں مانا جاسکتا ہے ۔ عوام کی تمام امیدیں موجودہ سرکار سے جڑی ہیں ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سرکار انہیں بھوک سے مرنے نہیں دے گی ۔ لوگوں کو صرف دو وقت کی روٹی نہیں چاہئے بلکہ اطمینان بخش زندگی گزارنے کے لئے روزگار کا محفوظ وسیلہ درکار ہے ۔ اب حکومت کو اپنے رعایا خاص کر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔
