مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں سے لے کر دہلی سے آنے والا ہر وزیر نوجوان کو خود روزگار کمانے کا مشورہ دیتا ہے ۔ نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ سرکاری نوکریوں کے بجائے سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھاکر اپنا روزگار خود کمائیں ۔ اس حوالے تجارت ، باغبانی ، زراعت اور دوسرے شعبوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ ایسی اسکیموں سے اپنے لئے روزگار کمانے کے ساتھ ساتھ دوسرے نوجوانوں کے لئے بھی روزگار کا وسیلہ فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ تازہ ترین مثال بھیڑ بکریاں اور پشوپالن کی دی جاتی ہے ۔ پچھلے کئی روز سے سرکاری اہلکار اس شعبے سے جڑی کچھ اسکیموں کا پورے زور وشور سے چرچا کررہے ہیں ۔ اس سے پہلے کئی سال تک مرغ پالن اور اس کے ذریعے روزگار کمانے کی ترغیب دی گئی ۔ ای طرح مچھلی فرام بنانے اور مچھلیاں فروخت کرکے روزگار کمانے کا مشورہ دیا گیا ۔ ایسی بہت سی اسکیمیں ہیں جن کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان اسکیموں کے لئے بہت سے نوجوانوں کو قرضہ اور سبسڈی دی گئی ۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ایسی بیشتر اسکیمیں ناکام رہیں اور نوجوانوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کے لئے نقصان کا باعث بنیں ۔ ایسے بیشتر نوجوان جنہوں نے خود روزگار اسکیموں کے لئے بینکوں سے قرضہ حاصل کیا آج تک قرضہ نہیں چکا سکے ۔ ان نوجوانوں کو اپنی ملکیتی اراضی فروخت کرکے قرضہ ادا کرنا پڑا ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اشیا کے فروخت کرنے کے لئے یہاں کوئی بھروسہ مند مارکیٹ نہیں پایا جاتا ۔ ایسی اشیا کی پیداوار کے مطابق کھپت نہیں پائی جاتی ۔ خاص کر گائوں دیہات کے نوجوانوں کے لئے ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانا بہت مشکل ہے ۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں بہت سے نوجوانوں نے روزگار کمانے کی کوشش کی ۔ مختلف قسم کی گاڑیاں خرید کر ان سے روزگار کمانے کی طرف دھیان دیا ۔ لیکن ایسے سب لوگ نالاں ہیں کہ کمائی کے بجائے گھاٹے کا شکار ہیں ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ان کی کمائی پر برا اثر پڑا ۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لاتے ہوئے انہیں کئی سرکاری ایجنسیوں کے دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جگہ جگہ چلان ، جرمانے اور رشوت ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس وجہ سے اصل زر بھی ڈوب جاتا ہے ۔ یہی حالت دوسری اسکیموں کی بھی ہے ۔ خام مال کافی مہنگا ہوچکا ہے ۔ یہ مال حاصل کرنے پر جتنا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے اتنی آمدنی نہیں ہوتی ، منافع کی بات ہی نہیں ۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر نوجوان سرکاری نوکریوں کے پیچھے لگے ہیں ۔ سرکار ایسا کرنے سے قاصر ہے ۔ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان عام نوجوان پسے جارہے ہیں ۔
یہ بات اپنی جگہ کہ بہت سے لوگوں نے اپنا کاروبار شروع کرکے کافی ترقی کی ۔ ان کی دیکھا دیکھی لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ سرکاری نوکریوں کے پیچھے لگ جانے کے بجائے اپنا روزگار آپ کمانا بہتر ہے ۔ تجارت میں جو برکت ہے اور اپنا روزگار آپ کمانے میں جو عزت ہے وہ سرکاری نوکری میں ہرگز نہیں ۔ سرکاری ملازموں کے لئے لگی بندی آمدنی ہے ۔ سرکری تنخواہ سے وہ اپنا خرچہ پورا کرنے کے اہل بن جاتے ہیں ۔ لیکن اس ذریعے سے اتنا سرمایہ اکٹھا نہیں کیا جاسکتا کہ آنی والی نسلیں اس کا فائدہ اٹھا سکیں ۔ بس اپنا خرچہ پورا ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دوسرے کا ملازم بننے سے یہ بات بہتر ہے کہ دوسروں کو ملازمت دی جائے ۔ یہاں پچھلے ستھر سالوں سے حالات یہ ہیں کہ سرکار کے بغیر ملازمتیں فراہم کرنے کا سوچا نہیں جاسکتا ۔ آج بھی یہاں پرائیویٹ سیکٹر کا کہیں وجود نہیں ۔ اب لے دے کے باغبانی کا شعبہ تھا جو کسی حد تک آمدنی کا بڑا وسیلہ تھا ۔ لیکن اس کی حالت بھی ابتر ہے ۔ باغبانی سے جڑے کسانوں بلکہ تاجروں کا بھی الزام ہے کہ اس شعبے کو کئی سازشوں کے ذریعے تباہ و برباد کیا گیا ۔ کسان نالاں ہیں کہ میوے آلو کے بھائو فروخت ہورہے ہیں ۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ خود روزگار اسکیموں کو آگے بڑنے دیا جائے گا دیوانے کا خواب ہے ۔ پھر حقیقت یہ ہے کہ ہر نوجوان کو خودروزگار کمانے کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا ۔ تمام نوجوانوں کے لئے ایسے مواقع نہیں ہیں کہ اپنا روزگار آپ کما سکیں ۔ یہ کہیں بھی ممکن نہیں ہے ۔ یہ کوئی دانائی کا مشورہ نہیں ہے ۔ بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ مقامی تاجرعیاں طور پریشان ہیں ۔ وہ کھل کر اپنی پریشانیوں کا اظہار کررہے ہیں ۔ پڑھے لکھے نوجوان ذہنی انتشار کا شکار ہیں ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کررہے نوجوانوں کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جارہاہے ۔ ایسے میں نوجوان جائیں تو جائیں کہاں ۔ ان کی نظریں ایک بار پھر سرکاری نوکریوں پر لگی ہیں ۔ لیکن سرکار ایسا کرنے کے بجائے انہیں دوسرے راستے اختیار کرنے کا مشورہ دے رہی ہے ۔ اس وجہ سے نوجوانوں کو کوئی سہولت ملنے کے بجائے ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہاہے ۔ نوجوان سنگین صورتحال سے دوچار ہیں ۔
