بدھ وار کو انتظامیہ نے اچانک ہمہامہ میں مبینہ سرکاری اراضی پر کھڑا کی گئی تعمیرات ہٹانے کاکام انجام دیا ۔ اس انہدامی کارروائی کو انجام دینے کے لئے سخت سیکورٹی کا انتظام کیا گیا تھا ۔ جائے وقوع پر ریو نیو محکمے کے اہلکاروں کے علاوہ پولیس اہلکار اور دیگر کئی سرکاری آفیسر موجود تھے ۔ انہدامی کارروائی کا آغاز ایک آوٹ ہاوس کے باہر بنی دیوار سے کیا گیا ۔ دیوار گرانے کے بعد اندر بنے آوٹ ہاوس کا بڑا حصہ منہدم کیا گیا ۔ اس دوران پتہ چلا کہ متعلقہ جائداد معروف سیاسی لیڈر اور این سی کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر کی اہلیہ کے نام پر درج ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ پچھلے کئی روز سے سرکاری اراضی واگزار کرنے کی جاری مہم جس کے تحت عام شہری بڑے پیمانے پرمتاثرہوئے پہلی بار ایک بڑے سیاسی کارکن کو اس کی زد میں لایا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ عمارت کے مالکان میں سے کوئی وہاں موجود نہیں تھا ۔ اس کی کوئی پروا کئے بغیر انتظامیہ نے مطلوبہ کارروائی عمل میں لاتے ہوئے تعمیرات کو منہدم کیا ۔
پچھلے کئی روز سے انتظامیہ کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہاتھا کہ انہدامی کافروائی کا دائرہ عام اور غریب شہریوں تک محدود ہے ۔ اس کے بعد ایل جی منوج سنہا نے ایک بیان میں واضح کیا کہ سرکاری اراضی کی واگزاری کا مقصد ان لوگوں سے اراضی چھڑانا ہے جنہوں نے اپنے مرتبے اور اختیارات کا غلط استعمال کرکے خالصہ سرکار کو ہڑپ کیا ہے ۔ ان کے اس بیان کے باوجود انہدامی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑا اور کئی علاقوں میں بے بس شہریوں کو ایسی زمین سے بے دخل کیا گیا ۔ متاثرہ شہری دہائی دے رہے تھے کہ انہیں سرچھپانے کے لئے کوئی متبادل جگہ دستیاب نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کارروائی جاری رہی اور مبینہ طور کئی سو ایکڑ اراضی ناجائز قبضے سے چھڑا لی گئی ۔ یہ کارروائی جاری تھی کہ اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ سرکاری اہلکاروں نے ائر پورٹ روڈ پر ہمہامہ میں واقع ایک عمارت زمین بوس کرنے کی کارروائی شروع کی ۔ اس کے ساتھ معلوم ہوا کہ یہ کارروائی ایک بڑے سیاسی لیڈر کے خلاف کی جارہی ہے ۔ علی محمد ساگر کے فرزند اور سابق میئر سرینگر میونسپل کونسل سلمان ساگر نے کارروائی کے حوالے سے ایک ویڈیو بیان میں الزام لگایا کہ ناجائز قرار دی جارہی تعمیرات باضابطہ سرکاری اجازت نامے کے تحت کھڑا کی گئی اور اس کو گرانے کا کام غیر قانونی ہے ۔ ادھر نیشنل کانفرنس حلقوں نے اسے ایک انتقامی کارروائی قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ساگر عوام پر ہورہی زیادتیوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور انتطامیہ کے خلاف صف آرا ہیں ۔ اس وجہ سے انہیں ٹارگٹ بنایا جارہاہے ۔ تاہم ساگر اور این سی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ انہدامی کاروائی کے خلاف بیان بازی بے بنیاد ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے بیان سے اصل میں ساگر اور دوسرے این سی لیڈر لوٹ کھسوٹ کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو ۔ یہ بات واضح ہے کہ سرکار انہدامی کارروائی بڑے پیمانے پر عمل میں لانے کا منصوبہ بناچکی ہے ۔ کسی ردعمل کی پروا کئے بغیر اس طرح کی کارروائی کا دائرہ مزید وسیع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ سرکار اس حوالے سے اطمینان سے کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسی کارروائی کے حق میں کئی عوامی حلقے کھل کر اظہار رائے کررہے ہیں ۔ خاص کر وہ لوگ جو کسی وجہ سے خالصہ سرکار یا کاہچرائی پر قبضہ جمانے میں ناکام رہے ہیں ایسی ایک ایک انچ زمین واگزار کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے جب بھی اس طرح کی کوئی کارروائی کی گئی لوگوں کے بڑے طبقے نے اس کی حمایت کی ۔ انہدامی کارروائی پہلی بار مفتی سعید مرحوم کے دور میں اس وقت شروع کی گئی جب انہوں نے سڑکوں کی تعمیر و ترقی کا کام بڑے پیمانے پر ہاتھ میں لیا ۔ بعد میں یہ کارروائی عمر عبداللہ کے دور میں بھی جاری رہی ۔ یہ کارروائی آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ سیاسی حکومتوں کی چھٹی ہوگئی اور یو ٹی پر گورنر راج نافذ ہوگیا ۔ گورنر راج کے پچھلے تین سالوں کے دوران ایسی کارروائی وقفے وقفے سے جاری ہے ۔ خاص طور سے دوردراز کے علاقوں میں سڑکیں بنانے کے دوران ایسی کارروائی برابر جاری ہے ۔ اس دوران کئی پرانے رہائشی مکان اور دوسری قسم کی تعمیرات زمین بوس کردی گئیں ۔ ایسے بے سہارا لوگوں کا ردعمل کہیں بحث و مباحثے کا موضوع نہ بنا ۔ یہاں تک کہ علی محمد ساگر کے تعلق سے کھڑی تعمیرات پر بلڈوزر چلا یاگیا ۔ یہ کوئی سیاسی انتقام گیری ہے یا معمول کی کارروائی اس پر کچھ کہنا مشکل ہے ۔ اس کے باوجود یہ بات جواب طلب ہے ہے کہ لوگوں کو راحت پہنچانے کے بجائے انہیں ذہنی تنائو میں مبتلا کیوں رکھا جارہاہے ۔ ایسی انہدامی کارروائی قانونی طور بجا سہی تاہم پہلی ترجیح لوگوں کا مفاد ہونا چاہئے ۔ لیکن حکومت اس حوالے سے کوئی مشورہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
