ائرپورٹ روڈ پر قائم علی ساگر کی کوٹھی پر انہدامی کاروائی کے بعد سرینگر میں واقع معروف نیڈوزہوٹل کو بھی اس مہم کی زد میں لایا گیا ۔ ہوٹل ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے جو دوسو سال پہلے لیز پر حاصل کی گئی اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ مبینہ طور سرینگر میں تعمیر کیا گیا اپنی نوعیت کا پہلا ہوٹل ہے جو رشتے کی وجہ سے شیخ عبداللہ کی فیملی کی تحویل میں آگیا ۔ اس دوران یہاں کئی سیاسی معرکے لڑے گئے اور بہت سے ملکی اور عالمی شہرت کے لیڈروں نے یہاں آکر کئی دائو پیچ کھیلے ۔ شیخ خاندان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوٹل ایریا میں مبینہ طور غیر قانونی تجاوزات کی گئیں ۔ ان تجاوزات کو ہٹانے کے لئے منگل کو بلڈوزر چلایا گیا اور کئی تعمیرات ہٹاکر سرکاری زمین کو واگزار کیا گیا ۔ انہدامی مہم کے اس اقدام کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی گئی ۔ لیکن یہ کوششیں ناکام رہیں اور سرکاری اہلکاروں نے اپنا ہدف حاصل کرنے کے بعد ہی واپسی کی راہ اختیار کی ۔ سرینگر میں انہدامی مہم کے تحت کی جانے والی یہ ایک بڑی اورنمایاں کاروائی قرار دی جاتی ہے ۔
سرکار نے پچھلے ایک مہینے سے ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کی جو مہم شروع کی ہے وہ پورے زور و شور سے جاری ہے ۔ اس حوالے سے سرینگر کے علاوہ کئی دوسرے علاقوں میں کاروائیاں جاری ہیں ۔ آدھ درجن کے قریب ایسی ناجائز قراردی گئی عمارتوں کو گرایا گیا جو سابق وزیروں کی ملکیت بتائی جاتی ہیں ۔ اس طرح کی کاروائی جن سابق وزرا کے خلاف کی گئی ان میں پیرزادہ سعید ، حسیب درابو اور غلام حسن خان شامل ہیں ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ ان افراد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے عمارات تعمیر کی ہیں ۔ اس وجہ سے ان تعمیرات کو ہٹانے کی مہم شروع کی گئی ۔سپریم کورٹ کی طرف سے اس کاروائی کی حمایت کی گئی اور ناجائز تجاوزات کو جلد از جلدہٹانے کی ہدایت دی ۔ قاضی گنڈ سے لے کر کپوارہ تک انہدامی مہم جاری ہے ۔ اس حوالے سے الزام لگایا جارہاہے کہ سب سے زیادہ غریب اور عام لوگوں کو تختہ مشق بنایا جارہاہے ۔ گورنر انتظامیہ کی طرف سے یقین دہانی کی گئی تھی کہ عام شہریوں کو اس کا ہدف نہیں بنایا جائے گا ۔ بلکہ کاروائی ان بااثر شخصیات تک محدود رہنے کا اعلان کیا گیا جنہوں نے اپنے اثر ورسوخ اور اقتدار کا استعمال کرکے سرکاری اراضی پر قبضہ جمایا ہے ۔ لیکن عملی طور انتظامیہ بغیر کسی تفاوت کے لوگوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے ۔ اس دوران ہر طرح کی اراضی کو واگزار کرانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ایسی اراضی جو کسی طور سرکار کے کام کی نظر نہیں آتی لوگوں کے قبضے سے نکال کر اسے ممنوع زمین قرار دیا جارہاہے ۔ عام لوگ اس بات پر یقین کررہے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی ۔ لیکن سب سے پہلے ان ہی عام شہریوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی ۔ اس حوالے سے ایل جی منوج سنہا نے از خود بیان دیتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ صرف اور صرف ان ہی لوگوں کو کاروائی کی زد میں لایا جائے گا جو بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ماضی میں من مانی کرتے ہوئے سرکاری اراضی پر قبضہ جماچکے ہیں ۔ بیان کے تناظر میں اندازہ تھا کہ کاروائی صرف روشنی ایکٹ کے ذریعے تحویل میں لی گئی اراضی تک محدود رہے گی ۔ بعد میں کہا گیا کہ سیاسی لیڈروں اور بیروکریسی میں فعال کردار ادا کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا ۔ کاروائی آگے بڑھی تو یہ بات سامنے آئی کہ ریونیو اہلکاروں کے درمیان زمین کی واگزاری کے معاملے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہر کوئی اپنی کارکردگی ببڑھاچڑھاکرپیش کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ حالانکہ اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے یہ بات کئی بار دہرائی گئی کہ عام شہریوں کو انہدامی کاروائی کی زد میں نہیں لایا جائے گا ۔ لیکن یہ اعلانات دل کے بہلانے تک ہی محدود رہے ۔ عملی طور سارے ہی ایسے لوگ مجرم قرار پائے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے ۔ پہلے کسی کو یقین نہیں تھا کہ بڑی مچھلیوں کو ایک کے بعد ایک پکڑا جائے گا ۔ آج تک ایسا سخت قدم اٹھانے کی یہاں کوئی ضرورت محسوس کی گئی نہ کسی نے جرات کی ۔ مرکزی سرکار کے لاڈلے قرار دئے جانے والے جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی لوگ اس پر حیران و پریشان ہیں ۔ کاروائی کا مقصد کیا ہے اندازہ لگانے میں لوگ ناکام ہیں ۔ اگرچہ لوگ اس کاروائی کی حمایت کررہے ہیں تاہم کاروائی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں ۔ ہرشہری کو اس کی زد میں آنے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ کشمیر واحد ایسا علاقہ ہے جہاں کوئی گھر کی تنگی کی وجہ سے سڑک پر سونے کے لئے مجبور نظر نہیں آتا ۔ اب امیر و کبیر لوگوں کے ساتھ غریبوں کے گھر بھی گرائے جائیں تو یقینی طور اس کے اثرات دور رس ہونگے ۔ عوام اس شش و پنج میں ہیں کہ ان کا مستقبل کیسا ہوگا ۔