سیکورٹی حلقوں کا الزام ہے کہ منشیات کے سہارے کشمیر میں ٹررازم کو فروغ دیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے تازہ ترین بیان فوج کی شمالی کمان کے سربراہ اوپیندردویدی نے منگل کو دیا ۔ انہوں نے اس طرز کی دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک بڑا چیلنج قرار دیا ۔ منشیات سمگلنگ کو پراکسی جنگ کے لئے ایک نیا ہتھیار قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسے سماجی تانے بانے تباہ کرنے کی سازش بتایا ہے ۔ دویدی نے یقین دلایا کہ اس محاذ پر جلد ہی کامیابی حاصل کی جائے گی ۔ تاہم انہوں نے اسے پوری سوسائٹی کے لئے بہت ہی سنگین مسئلہ قرار دیا ۔ منشیات کا پھیلائو بذات خود ایک تشویشناک معاملہ ہے ۔ پھر جب اسے دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کیا جائے تو ایک مایوس کن بات ہے ۔ خاص کر کشمیر میں اسے برداشت کرنا کسی بھی حلقے کے لئے ممکن نہیں ہے ۔
نار کو ٹیررازم کی بات پہلی بار سامنے نہیں آئی ہے ۔ بلکہ پچھلے دو سالوں سے اس طرح کے الزامات کئی بار لگائے گئے ہیں ۔ پولیس نے کئی ایسے نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جو مسلح ہونے کے ساتھ ساتھ منشیات کا اکروبار بھی کرتے تھے ۔ ان سے نشہ آور اشیا کے علاوہ لاکھوں روپے برآمد کئے گئے ۔ جو مبینہ طور جموں کشمیر میں ملی ٹنسی کو فروغ دینے کے لئے استعمال کئے جارہے تھے ۔ پولیس کے علاوہ کئی سیول اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اعلان کیا کہ ایسے کئی ماڈیول پکڑے گئے جو منشیات کا سہارا لے کر ملی ٹنسی کو بڑھاوا دینے اک کام کررہے تھے ۔ دہلی ، پنجاب اور دوسرے علاقوں میں بہت سے ایسے منشیات فروش پکڑے گئے جن کا ملی ٹنٹوں کے ساتھ تعلق ہونے کا اظہار کیا گیا ۔ وادی میں پچھلی کئی سالوں سے منشیات کا استعمال اور کاروبار بڑے پیمانے پر فروغ پارہاہے ۔ پہلے کہا گیا کہ بے کاری اور بے روزگاری بڑھ جانے کی وجہ سے نوجوان اس دھندے میں آگئے ۔ اپنی روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے کے لئے آمدنی کا کوئی معقول ذریع نہ ملنے کے بعد نوجوانوں نے منشیات کی خرید و فروخت شروع کی ۔ بعد میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ پریشان کن بات سامنے آئی کہ منشیات کیا ٓڑ میں ملی تنسی کو آگے بڑھا یا جارہاہے ۔ پہلے پہل اس پر یقین کرنا مشکل تھا ۔ لیکن جب ایسے بیانات اور واقعات بار بار سامنے آئے تو دال میں کچھ کالا نظر آنے لگا ۔ کوئی نوجوان بندوق اٹھانے کے بعد چرس اور برائون شوگر جیب میں رکھے گا متضاد بات ہے ۔ اب آئے دن ایسے لوگ پولیس کی گرفت میں آرہے ہیں جو دوہرا کاروبار چلانے میں ملوث بتائے جاتے ہیں ۔ اس دوران مردوں کے علاوہ خواتین کے اس کاروبار میں ملوث ہونے کا بھی انکشاف کیا گیا ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ خواتین کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کیا جارہاہے اور ان کی عزت کا خیال نہ کرتے ہوئے انہیں منشیات کے دھندے میں ملوث کیا جارہاہے ۔ اس سے بڑی بے حیائی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ گھر کی عزت کو سرعام نیلام کیا جائے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری سماجی اقدار کس طرح پامال ہورہی ہیں ۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کے الزام میں اب تک کئی سو نوجوان پکڑے گئے ۔ ان میں درجنوں نوجوانوں کئی مہینوں سے جیلوں میں بند پڑے ہیں ۔ نوجوانوں کا اس طرح سے بے دھڑک ایسے کاروبار میں آنا اور پھر پولیس کے ہتھے چڑھنا بڑی تشویشناک بات ہے ۔ یاد رہے کہ ایسے نوجوانوں کا کیریر ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہوجاتا ہے ۔ ان کی سماجی زندگی تہس نہس ہوکر رہ جاتی ہے ۔ سرکار نے کئی ایسے سنٹر قائم کئے ہیں جہاں منشیات میں ملوث نوجوانوں کا علاج کرنے کے علاوہ ان کی کونسلنگ بھی کی جاتی ہے ۔ ایسے کئی نوجوان واپس نارمل زندگی میں آگئے ہیں ۔ لیکن یہ تعداد بہت ہی کم ہے ۔ اس کے بجائے روزانہ بنیادوں پر نوجوان اس ناجائز کاروبار میں ملوث ہونے کی بنیاد پر پکڑے جاتے ہیں ۔ والدین کی کوششیں بہت حد تک ناکام ہوچکی ہیں اور نوجوان مسلسل اس کاروبار کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں کو ایسی غیر قانونی اور ملک دشمن سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لئے انہیں کاروبار میں لگایا جارہاہے ۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو قرضے اور دوسری سہولیات فراہم کرکے خود روزگار اسکیموں پر لگادیا گیا ہے ۔ ان نوجوانوں کو مثبت سمت دے کر بہتر مستقبل کے حصول میں لگادیا گیا ۔ کھیل کود اور دوسری سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کو مین اسٹریم میں لایا گیا ۔ بلکہ ایسی بہت سی سرگرمیوں کی مدد سے ان کے اندر خود روزگار کمانے کی طرف مائل کیا گیا ۔ اس کے پس پردہ یہ بات بھی مدنظر ہے کہ نوجوان منشیات اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں ۔ ایسا کرکے بہت حد تک کامیابی حاصل کی گئی ۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ نوجوان نارکو ٹیررازم کا حصہ بن رہے ہیں ۔ فوج نے اسے تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس پر قابو پانے کے عزم کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔
