مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں سے فوج مرحلہ وار طریقے سے بہت جلد واپس بلائی جائے گی ۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ فوج کو سرحدوں پر تعینات کرکے دوسرے کاموں سے فارغ کیا جائے گا ۔ فوج کے اس انخلا کے لئے پہلے ہی منصوبہ تیار کیا گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے ان علاقوں سے فوج واپس بلائی جائے گی جہاں حالات میں بہتری پائی جاتی ہے ۔ جن علاقوں کے حالات کے حوالے سے تاحال تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے وہاں فی الحال فوج میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ مرکزی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران کشمیر کے حالات میں بہت حد تک بہتری آئی ہے ۔ اس وجہ سے فوج کی تعیناتی اب ضروری نہیں سمجھی جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت داخلہ نے وزارت دفاع کے ساتھ طے کیا ہے کہ فوج کو شہری علاقوں میں تعینات رکھنے کے بجائے اب سرحدوں پر اصل کام کے لئے بھیجا جائے ۔ مرکزی سرکار کے اس فیصلے کی تمام حلقوں نے سراہنا کی ہے ۔
جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر شہری علاقوں میں فوج تعینات ہے ۔ فوج کی شہری علاقوں میں اس طرح کی تعیناتی کو فوجی نقطہ نظر سے بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے فوجی جوانوں کی سلاحیتوں پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ رہتا ہے ۔ بلکہ دیکھا گیا ہے کہ فوج بہت حد تک اپنے اصل کام سے لاتعلق ہوکر رہ جاتی ہے ۔ ہندوستان کی فوج ایک پیشہ ورانہ فوج ہے ۔ جس کے اندر سخت ڈسپلن پایا جاتا ہے ۔ فوج کے جوان ہی نہیں بلکہ اس کے جرنیل اور دوسرے آفیسر فوج کے اصل کام کے علاوہ کسی بھی صورت میں دوسرے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ۔ پچھلے ستھر سالوں کے دوران فوج نے کئی جنگیں لڑیں ۔ اس کے علاوہ پراکسی جنگ سے بھی ایک طویل عرصے تک مشغول رہی ۔ یہ سارے کام اس نے پوری صلاحیت اور کامیابی سے انجام دئے ۔ اگرچہ کئی بار سخت مقابلہ کرنا پڑا تاہم فوج نے کبھی بھی سرنڈر نہیں کیا ۔ یہ فوج کا ہی کارنامہ ہے کہ ملک ابھی تک مضبوطی سے پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم کئے ہوئے ہے ۔ اس دوران فوج کو ملی ٹنسی سے نپٹنے کے لئے کئی محاذوں پر کام کرنا پڑا ۔خاص طور سے جموں کشمیر میں اسے عسکریت کا مقابلہ کرنے کے لئے شہری علاقوں میں تعینات کیا گیا ۔ اس دوران اسے کئی موقعوں پر سخت اور دشوار محاذوں پر لڑنا پڑا ۔ اس محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت کا کہنا ہے کہ فوج کو شہری علاقوں سے واپس بلاکر بیرکوں اور سرحدوں پر تعینات کیا جائے گا ۔ ماضی میں کئی بار لوگوں نے اس وقت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ فوج کو شہری علاقوں سے واپس بلایا جائے ۔ اس زمانے میں بھی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہاں مکمل امن و امان قائم کیا گیا ہے ۔ کئی علاقے ملی ٹنٹوں سے کالی کرائے گئے تھے ۔ ان علاقوں سے فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ زور وشور سے کیا گیا تھا ۔ بلکہ دہلی سے حالات کا جائزہ لینے کے لئے جو کئی وفود آئے تھے ان کے ممبروں نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ جنگجووں سے کالی ہوئے علاقوں سے فوج واپس بلائی جائے ۔ لیکن ایسی کوئی تجویز ماننے سے انکار کیا گیا ۔ بلکہ عالمی ادارے بھی مسلسل زور دے رہے تھے کہ فوج کا انخلا عمل میں لایا جائے ۔ لیکن ان مطالبوں کو شدت سے مسترد کیا گیا ۔ ایسے تمام موقعوں پر یہی جواب دیا گیا کہ جب بھی سرکار محسوس کرے گی کہ اب فوج کی ضرورت نہیں تو فوج کو واپس بلایا جائے گا ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت فوج کو دوسرے تمام کاموں سے فارغ کرکے اپنے اصل کام سے ہی منسلک رکھنا چاہتی ہے ۔ اس مقصد سے پہلے جموں کے بہت سے علاقوں سے فوج کا انخلا عمل میں لیا جارہاہے ۔ بعد میں یہ عمل دوسرے علاقوں میں بھی دوہرایا جائے گا ۔ اس سے عوام کو یقینی طور راحت ملے گی ۔ فوج کے شہری علاقوں میں تعینات رہنے سے جہاں فوج کے ڈسپلن کے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے وہاں عام شہریوں کو بھی اس وجہ سے روزمرہ کے معاملات انجام دینے میں فرق محسوس ہوتا ہے ۔ فوج کے ان علاقوں سے انخلا سے یقینی طور فوج اور عوام دونوں کو آسانی محسوس ہوگی ۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس سے لوگ بہت حد تک اطمینان بخش فیصلہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ فیصلہ سرکار نے از خود لیا ہے ۔ آج کل لوگ ایسا کوئی مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ فوج کا انخلا عمل میں لایا جائے ۔ بلکہ یہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کا مشترکہ فیصلہ ہے جس کی جانکاری اچانک ہی سامنے آئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ دونوں مرکزی وزارتوں نے ضرورت محسوس کی کہ فوج کا شہری علاقوں سے انخلا عمل میں لایا جائے ۔ یہ کام مرحلہ وار طریقے سے انجام دیا جارہاہے ۔ کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے پولیس بھی ملی ٹنسی کے خلاف کامیابی سے اپنا کام انجام دے رہی ہے ۔ بلکہ پولیس نے کئی ایسے نیٹ ورک طشت از بام کئے جو بصورت دیگر سخت نقصان دہ ثابت ہوتے ۔ پولیس کی پچھلے کئی سالوں کی کارکردگی دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اب پولیس فوج کی مدد کے بغیر از خود بھی امن و امان بحال رکھنے کا کام انجام دے سکتی ہے ۔