سرمائی تعطیلات کے بعد اسکول باضابطہ طور کھولنے کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ بارھمولہ کے علاقے میں ایک ہیبت ناک واقع پیش آیا ۔ یہاں بوچھو پٹن میں واقع ایک پرائمری اسکول کے اندرمبینہ طور دو استادوں کے درمیان کسی بات پرجھگڑا ہوا ۔دونوں استاداپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور تو تو میں میں سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک آگئے ۔ اس دوران ایک استاد نے اپنے ساتھی استاد کا کان دانتوں سے چباکر کاٹ لیا ۔ابھی یہ حادثہ پیش ہی آیا تھا کہ اس کا چرچا سوشل میڈیا پر ہونے لگا۔ پولیس نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کیااور اس کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔ اس دوران متعلقہ زونل آفیسر کی رپورٹ کا حوالہ دے کر مذکورہ استاد کو معطل کیا گیا ۔ بہ ظاہر کان کاٹنا ایک معمولی واقع ہے ۔ لیکن ایک استاد کے ذریعے اس طرح کا واقع پیش آنا کسی المیہ سے کم نہیں ۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ تعلیم میں کام کرنے والے معماران قوم کی حالت کس قدر بگڑ چکی ہے اور ان کے اندر اپنیسماج کا احترام اور اپنے آفیسروں کا خوف کس قدر ختم ہوچکا ہے ۔ اس واقعے کو لے کر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔
یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے کہ پچھلے تیس سالوں کے دوران محکمہ تعلیم اپنے زوال کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے ۔ اگر صرف پچھلے سال کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسکولوں کے اندر بے حیائی اور مار کٹائی کے درجنوں واقعات پیش آئے ۔ ایسے بیشتر واقعات میں اساتذہ کے ملوث ہونے کی تصدیق کی جاچکی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے کسی استاد کے خلاف کوئی سنگین کاروائی نہیں کی گئی ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اعلیٰ حکام کی بے توجہی اور بزدلی بتائی جاتی ہے ۔ اساتذہ اس بات سے باخبر ہیں کہ زیڈ ای او سے لیکر ناظم تعلیمات تک جتنے بھی آفیسر ہیں محض شو پیس بن کر رہ گئے ہیں ۔ ایسے بیشتر آفیسر اپنے دفتروں کے اندر آرام دہ کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھ کر احکامات جاری کرنے کے سوا کوئی تعمیری کام انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ۔ انہیں اسکولوں کے اندر پائی جانے والی زمینی صورتحال کی سرے سے ادراک نہیں ہے ۔یہ لوگ کاغذی گھوڑے دوڑانے کے بڑے ماہر ہیں ۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اور عوام کو دھوکہ دینے کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسکولوں کے اندر پورے تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن سے پورے محکمے کا سر شرم سے جھک جانا چاہئے ۔ لیکن یہاں پورا عملہ ہی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں ایسے واقعات سے رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتا ۔ محکمے کو ان لوگوں کے حوالے کیا گیا ہے جو دوسرے کسی بھی محکمے کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں ۔ اس کا خمیازہ ہمارے ان طلبہ کو بھگتنا پڑ تاہے جو والدین کی غربت کی وجہ سے نجی اسکولوں میں جا نہیں پاتے ہیں ۔ طلبہ کو غیر ضروری کاموںمیں مصروف رکھ کر انہیں یہ بات ذہن نشین کرائی جارہی ہے کہ ان کا مستقبل درس و تدریس سے نہیں بلکہ ان ماورائے نصاب سرگرمیوں سے محفوظ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ محکمے کے آفیسر اسکولوں میں جاکر مڈڈے میل کا بڑی باریک بینی سے جائزہ تو لیتے ہیں ۔ بلکہ کرسی کرسی اور چھپا چھپی کھیل کر اپنے طلبہ دوست ہونے کا بڑا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ایسے آفیسروں کا ان کے ماتحتوں پر جو اثر پڑناہے اور اس ذریعے سے یہاں جو گل کھلنے چاہئے وہی کچھ سامنے آتا ہے ۔ اساتذہ پوری طرح سے جانتے ہیں کہ گائوں کے چوکیدار یا سرپنج کی ایک فون کال سے ہمارے بڑے سے بڑے آفیسر کے پیٹ میں موشن آنے لگ جائیں گے ۔پھر حیا کس چیز کا اور خوف کس بات کا ۔ اساتذہ تو اس چیز کے ماہر ہیں کہ جو کوئی بھی اقتدار میں آتا ہے اس کے چمچے بن جاتے ہیں ۔ کس موقعے پر کس سیاسی اور سماجی کارکن کا سہارا لے کر اپنے آفیسر کو ڈرانا ہے اس ہنر سے ہمارے یہ رہبر تعلیم پوری طرح سے واقف ہیں ۔ ہر ایرے غیرے نتھو کھیرے کو خوش رکھنا ان کے آفیسروں کے سروس رولز میں شامل ہوتا ہے ۔ قدرتی بات ہے کہ محکمے پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے اور کام کرنے والے اچھے اور برے دونوں سر عام بدنام ہوجاتے ہیں۔ اس بدنامی کا ہی اثر ہے کہ پرائیویٹ اسکول بڑی تیزی سے ترقی کرتے ہیں اور سرکاری ا سکول تنخواہ بانٹنے والی منڈیوں سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے ہیں ۔ بچی کھچی عزت بھی بوچھو پٹن میں پیش آئے گوش خوری کے واقع سے نیلام ہوگئی ۔ اس واقعے نے محکمہ تعلیم کے اندر نظم ونسق اور آفیسروں کے ڈھیلے پن کا بھانڈا پھوڑ دیا ۔ جو آفیسر سینہ پھیلا پھیلا کر اپنی قابلیت جتلاتے رہتے ہیں ان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ کام سے زیادہ چکنی چپڑی باتوں پر وقت صرف کرتے ہیں ۔ اندر سب کچھ کھوکھلا ہے ۔ شرافت اور صلاحیت کے تمام دعوے سراب ثابت ہوئے ۔ صحیح صورتحال یہ ہے کہ غریب اور پسماندہ گھروں کے بے سہارا بچوں کو عقل وشرافت سے عاری اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے اور آفیسر محکمے پر کوئی بہتر اثر ڈالنے میں ناکام رہے ہیں ۔
