سرکار نے صورہ میں قائم میڈیکل انسٹی چیوٹ کے نظم و نسق میں تبدیلی کرکے اسے محکمہ صحت کے کنٹرول میں دیا ہے ۔ ایک حکم نامے کے تحت فاصلہ صادر کیا گیا کہ آج کے بعد انسٹی چیوٹ کا سارا تال میل صحت محکمے کی وساطت سے انجام دیا جائے گا ۔ انسٹی چیوٹ کی طرف سے سرکاری حکام کے ساتھ خط وکتابت محکمہ صحت کی وساطت سے ہوگی ۔ اس طرح سے ادارے کا سارا نظم ونسق محکمہ صحت کے کنٹرول میں ہوگا اور اس کی خودمختاری ختم سمجھی جائے گی ۔ اس حوالے سے جنرل ایڈمنسٹریشن کی طرف سے سکمز کے ڈائریکٹر کو باضابطہ خط بھیجا گیا ہے جس میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ اب کے بعد ادارے کی ساری کاروائی محکمہ صحت اور طبی تعلیم کے زیرنگرانی ہوگی ۔ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے جو دوررس نتائج کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔
صورہ میں میڈیکل انسٹی چیوٹ چالیس پنتالیس سال پہلے قائم کیا گیا ہے ۔ ایک مقامی شہری کی طرف سے دی گئی عطیے کی رقم سے اس ادارے کا آغاز کیا گیا ۔ بعد میں سرکار نے اس کی بھرپور سرپرستی کی اور اس کے تعمیری ڈھانچے کو کافی وسعت مل گئی ۔ اس طرح سے کشمیر میں پہلی بار ایسا منفرد اور مضبوط صحت ادارہ میسر آیا ۔ انسٹی چیوٹ قائم کرتے وقت یقین دہانی کی گئی کہ اس کے ذریعے خطے کے عوام کو بہتر اور جدید طبی سہولیات میسر آئیں گی ۔ اس زمانے میں انسٹی چیوٹ کو جو مشنری اور افرادی قوت فراہم کی گئی اس ذریعے سے عوام کو کافی راحت میسر آئی ۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہا اور بہت جلد یہاں کام کررہے عملے نے ادارے کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کرنا شروع کردیا ۔ یہاں تک کہ اس کی حالت انتہائی مایوس کن سطح تک پہنچ گئی ۔ اس حوالے سے کئی محرکات کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ۔ ملی ٹنسی کے علاوہ ادارے کے اندر کام کرنے والے عملے کی کارکردگی کو بڑا ہی مایوس کن قرار دیا جانے لگا ۔ ڈاکٹروں نے پرائیویٹ پریکٹس کرنا شروع کی تو نیم طبی عملے نے نجی کلینک اور لیبارٹریاں قائم کیں ۔ اس طرح سے انسٹی چیوٹ آنے والے مریضوں کو نجی کاروباری اداروں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ ہسپتال کے اندر ایک بڑا مافیا قائم کیا گیا ۔ انتظامی اہلکاروں کی مدد سے ہسپتال کے اندر بڑے پیمانے پر سفارشوں کا عمل دخل ہونے لگا ۔ تقرریاں ذاتی اثر و رسوخ سے ہونے لگیں ۔ بلکہ علاج معالجے کی سہولیات بھی ان ہی مریضوں کے لئے مخصوص کی گئیں جن کے عزیز و اقارب ہسپتال میں کام کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے ادارے کو زوال آنے لگا اور بہت جلد یہ عوام کے لئے ایک ذبح خانہ بننے لگا ۔ یہاں تک کہ صورہ جانے والے مریض کی موت یقینی سمجھی جانے لگی ۔ کوئی بھی مریض جو صورہ میں داخل کیا جاتا تھا اس کے گھر والے اسی روز سے اس کی موت کا انتظار کرنے لگے ۔ صورہ میں علاج شفا کا نہیں بلکہ موت کا ضامن سمجھا جانے لگا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسٹی چیوٹ ظاہری رنگ و روغن کے باوجود اندر سے موت کے کنویں کے مترادف سمجھا جانے لگا ۔ یہی وجہ ہے کہ شدید تکلیف میں مبتلا بیمار صورہ ہسپتال کے بجائے کسی کمپائونڈر یا دہلی و ممبئی جاکر علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ادارے کی اندرونی خود مختاری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے علاج معالجے کا مرکز ہونے کے بجائے سبزی منڈی میں بدل دیا گیا جہاں کام کرنے والے ہر اہلکار کی نفع کمانے کی کوشش رہتی ہے ۔ بیشتر مشنری کو ضایع کرکے مریضوں کو مخصوص لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جانے لگا ۔ اس وجہ سے مریضوں کو موٹی موٹی رقمیں خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ اب حکومت نے ہسپتال کے نظم و نسق میں تبدیلی لاکر اسے براہ راست سرکار کے کنٹرول میں لایا ہے ۔ اس اقدام سے لوگوں کو کوئی راحت میسر آئے گی ایسا سوچنا قبل از وقت ہے ۔ یہاں کا عملہ اپنی عادت کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوگا ۔ بلکہ انہیں جن چیزوں کی لت پڑگئی ہے ان سے پرہیز کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ یہ صرف صورہ ہسپتال کا معاملہ نہیں بلکہ پورا نظام اسی طرح کی ابتر حالت سے دوچار ہے ۔ لوگوں کو کسی ایک جگہ بھی بہتر سہولیات میسر نہیں آتیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگ ذہنی طور سخت تنائو کا شکار ہیں ۔ لوگوں کو نجات کا کوئی وسیلہ نظر نہیں آتا ۔ لوگوں کے لئے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ایسے ادارے اک کنٹرول کون سنبھالتا ہے ۔ یہاں آنے والوں کو بہتر طبی سہولیات سے غرض ہے ۔ وہ پہلے میسر تھیں نہ آگے اس کا کوئی امکان ہے ۔ یہاں کا بھاوا آدم ہی نرالا ہے ۔ مقامی سرکاری اہلکاروں سے راحت کا کوئی کام انجام پانا ممکن نہیں ۔ طبی نظام بحیثیت مجموعی غیر تسلی بخش ہے ۔ صورہ ہسپتال ہو یا کوئی دوسرا سرکاری طبی ادارہ لوگ ہر جگہ سے مایوس ہوکر باہر جاکر علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سرکار کو چاہئے کہ طبی اداروں کی حالت زار کا جائزہ لے کر اس کے ذمہ داروں سے حساب لے ۔ یہی واحد طریقہ ہے لوگوں کو راحت پہنچانے کا تاکہ انہیں باہر جاکر علاج کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنا نہ پڑے ۔ عوام کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ اداروں اک نظم ونسق کون چلاتا ہے ۔ انہیں بہتر سہولیات سے غرض ہے ۔ ایسی سہولیات جہاں میسر آجائیں وہی ان کا مسیحا ہے ۔
