موسمیات اور زراعت کے ماہرین نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا کہ خشک موسم کے درمیان بارشوں میں شدید کمی ہوئی ہے ۔ اس سال اب تک بارشوں میں 22 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ بارشوں میں ایک چوتھائی کے لگ بھگ کمی واقع ہوئی ہے ۔ بارشوں میں یکمشت اس طرح کی کمی کا زرعی پیداوار اور مختلف فصلوں پر برا اثر پڑنا یقینی بتایا جاتا ہے ۔ بلکہ کئی لوگوں کا یہ بھی اندازہ ہے کہ آبشاشی کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی میں بھی کمی واقع ہوگی ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ کرہ ارض پر تمام حیاتیات کو شدید خطرہ لاحق ہوگا ۔ اگرچہ زمین کا بیشتر حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے اور کم حصہ خشکی پر مشتمل ہے ۔ لیکن پانی کا بڑا حصہ جو سمندروں اور ایسے ہی دوسری ذخائر میں موجود ہے پینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا نہ نباتات کے لئے فائدہ بخش ہے ۔ بارشوں کے ذریعے جو پانی زمین پر آتا ہے استعمال کے قابل ہوتا ہے ۔ بارشوں میں واضح کمی سے اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ زمانہ زمین پر زندگی گزارنے کے لئے دشواری کا باعث ہوگا ۔ سرکاری حلقوں نے اس کے برے اثرات سے پہلے ہی خبردار کیا ہے اور متبادل طریقے اختیار کرنے پر زور دیا ہے ۔
بارشوں میں کمی اور خشک سالی کے اندیشوں کے پیش نظر زرعی سائنسدانوں نے ایسے فصل اگانے پر زور دیا ہے جن کے لئے پانی کی ہت کم مقدار ضرورت ہوتی ہے ۔ بلکہ دالوں اور ایسی ہی فصلوں کو اگانے کا مشورہ دیا ہے ۔ زرعی سائنس کے ماہرین کے ایسے مشورے حق بجانب ہیں ۔ تاہم یہ بات کافی نہیں کہ خشک سالی کے اثرات کو صرف فصلوں کے اگلنے تک محدود رکھا جائے ۔ بلکہ اس سے انسانی زندگی کے براہ راست متاثر ہونے کے جو خدشات ہیں ان پر گہرائی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جموں کشمیر میں پہلے ہی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پینے کے پانی اور آبپاشی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ پہاڑی علاقوں اور کریووں پر رہنے والے کئی سالوں سے اس طرح کی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ قدرتی آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ گلیشروں اور دوسرے آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کا کام عام لوگ نہیں کرسکتے ہیں ۔ اس کے لئے جس منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ صرف سرکار کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے کام سرکار کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے ۔ یہاں کے مقامی ماہرین کے علاوہ ملک کے مختلف اداروں نے کئی موقعوں پر اس بات پر زور دیا کہ مستقبل کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے آبی ذخائر کو محفوظ بنانا از حد ضروری ہے ۔ لیکن حکمرانوں نے یہ بتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے چھوڑ دیں ۔ بلکہ ان باتوں پر سرے سے توجہ نہیں دی گئی ۔ اس دوران اعداد و شمار اور دوسرے ریسرچ پروگراموں سے یہ بات منظر عام پر لائی گئی کہ جموں کشمیر میں موجود بڑے بڑے گلیشر تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ ان کا حجم بہت حد تک کم ہوگیا ہے ۔ گلیشروں کے سکڑنے سے آبی ذخائر متاثر ہورہے ہیں ۔ سرکار نے آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کے بجائے ان علاقوں کے اندر ممانعت کے باوجودانسانی سرگرمیوں میں اضافے کی اجازت دی ۔ ٹریفک کی ایسے علاقوں کے اندر آمد رفت کی وجہ سے کثافت میں اضافہ ہوا جس سے گلیشر تیزی سے پگھلنے لگے ۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے علاقوں کے اندر لوگوں کی محدود تعداد کو چلنے پھرنے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے اس کے مخالف کام کئے گئے ۔ آج ہم اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب بڑے بڑے شہروں اور کثیر آبادی والے خطوں کی نسبت کشمیر میں پانی کی شدید کمی محسوس کی جاتی ہے ۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بارش میں کمی کے ساتھ خشک سالی کا سامنا ہے ۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آنے والے وقت میں اس وجہ سے کن مصائب کا شکار ہونا پڑے گا ۔ پانی پر انسانی زندگی کے بقا اور فنا کا دارومدار ہے ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پانی کے حصول پر عالمی نوعیت کی جنگوں کا خطرہ ہے ۔ پہلے ایسی جنگیں اقتدار اور زمینیں حاصل کرنے کے لئے لڑی جاتی تھیں ۔ اب آبی ذخائر پر قبضے کے لئے ایسی جنگیں لڑی جانے کا خطرہ ہے ۔ بلکہ اس معاملے پر پہلے ہی تنائو پایا جاتا ہے ۔ فوری خطرہ یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں فصلوں کی کاشت اور میووں کی پیداوار میں کمی آسکتی ہے ۔ انسانی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہے ۔ بہت سے لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے پاس بہت زیادہ سرمایہ پایا جاتا ہے اور وہ بڑے آرام سے زندگی گزار سکتے ہیں ۔ بینکوں میں پائے جانے والی رقوم سے آرام دہ سامان تو خریدا جاسکتا ہے ۔ لیکن مشروبات کا حصول بغیر پانی کے ممکن نہیں ۔ بارشوں میں جو کمی پائی جاتی ہے وہ خطرے کا الارم ہے ۔ لیکن ہم سنی ان سنی کرتے ہیں ۔ قدرت نے ہمیں پہلے ہی خبردار کیا ۔ اب یہ ہماری عقل اور سوچ پر منحصر ہے کہ ہم اس سے بچائو کے کون سے تدابیر اختیار کریں گے ۔ اس کے لئے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے سرکار کو اس میں کلیدی رول ادا کرنا ہوگا ۔ سنجیدہ لوگوں کی نظریں اس پر جمی ہوئی ہیں ۔
