سرینگر پولیس کی طرف سے انکشاف کیا گیا کہ جسم فروشی کے ایک اڈے کو طشت از بام کیا گیا ۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ چکلے کی سرپرستی کرنے والے دو افرادکے علاوہ چار جسم فروش عورتوں اور ان کے دوگاہکوںکو بھی گرفتار کیا گیا ۔ جسم فروشی کا یہ اڈہ باغ مہتاب میں پلوامہ کے رہنے والے دو افراد کی طرف سے کرایے کے ایک مکان میں چلایا جارہاتھا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک سقہ اطلاع ملنے کے بعد انہوں نے یہاں ایک مکان پر اچانک چھاپہ ڈالا جہاں اس اسکنڈل میں ملوث کئی افراد کو پکڑا گیا ۔مکان مالک کے خلاف بھی کیس بنایا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سرینگر کے تما م شہریوں کے لئے لازم بنایا گیا تھا کہ کرایہ داروں کے بارے میں نزدیکی تھانے میں ان کے کوائف درج کرائے جائیں ۔ بروقت اطلاع دی گئی ہوتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی ۔عوامی حلقوں نے اس انکشاف پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
کشمیری سماج پچھلے کچھ عرصے سخت شکست و ریخت کا شکار ہے ۔ جرائم کا گراف بڑی تیزی سے بڑھ رہاہے ۔ کچھ ہی دن پہلے کپوارہ میں ایک معصوم بچی کی لاش پولیس کو ملی تھی ۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا باپ ہے ۔ اس نے مبینہ طور پولیس کے سامنے اقبال جرم کیا ہے اور قتل کی وجہ اپنی بیوی کے ساتھ گھریلو جھگڑا بتایا ہے ۔ اس سے پہلے سوپور میں نشے میں دھت ایک نوجوان نے اپنی ماں کو بے دردی سے قتل کیا ۔ اسی طرح کئی وارداتیں اب تک پیش آئیں جن کے بارے میں سن کر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ تازہ ترین واقع سیکس اسکنڈل کا ہے ۔ ایک طرف یہاں کے عوام سخت اضطراب سے دوچار قرار دئے جاتے ہیں ۔ بلکہ عوام شکایت کررہے ہیں کہ انہیں ذہنی سکون حاصل نہیں ہے ۔ دوسری طرف سیکس کے اڈے چلائے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات کسی ایسے سماج میں پیش نہیں آتے جہاں کے مکین خلفشار سے دوچار ہوں ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ روایتی اقدار کے مالک سماج میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سرینگر میں سیکس کا ایسا کوئیا سکنڈل سامنے آیا ۔ بلکہ اب تک وقفے وقفے سے ایسے بہت سے کیس منظر عام پر آئے ۔ اس طرح کے واقعات کو قبول کرنا اب بھی یہاں کے شہریوں کے لئے بہت مشکل ہے ۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ اب ہمارا معاشرہ کوئی روایتی معاشرہ نہیں رہاہے ۔ بلکہ یہ ایسا سماج ہے جہاں دس لاکھ کے آس پاس لوگ منشیات کے عادی ہیں ۔ منشیات کے عادی افراد میں کئی سو خواتین بھی شامل ہیں ۔ چرس اور گانجے کے عادی ایسے افراد پولیس کریک ڈاون کے باوجود اپنی حرکات سے باز آنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ انہیں سماج کا کوئی دبائو ہے نہ گھر کے افراد سے شرم سار ہیں ۔ بلکہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کاروبار کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح چکلہ چلانے والے مرد وخواتین بڑی ڈھٹائی سے اپنا کام انجام دیتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کے اندر مذہبی تبلیغ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کاروبار سے کئی ہزار لوگ جڑھے ہیں ۔ اس کاروبار کو پروان چڑھانے میں لوگ پوری تن دہی سے مدد کررہے ہیں ۔ تاہم یہ اقرار کرنا بھی ضروری ہے کہ مذہبی اکابر کا اثر قبول کرنے کو عوام تیار نہیں ہیں ۔ باغ مہتاب میں منظر عام پر آئے سیکس اسکنڈل نے کئی عوامی طبقوں کو مایوس کیا ہے ۔ سماجی حلقے پوری طرح سے مایوس ہورہے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ سدھار کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں ۔ لوگ اس طرح کے معیوب کاموں میں کیوں ملوث ہورہے ہیں تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لوگوں کردار بڑی تیزی سے تنزل کی طرف جارہاہے ۔ تمام مسلمہ اصولوں سے بغاوت کرکے فحاشی کی راہوں کو اختیار کیا جارہاہے ۔ اس حوالے سے کسی قسم کو خوف یا نصیحت قبول کرنے کے لئے لوگ تیار نہیں ۔ بہت سے لوگ از خود سماج کی نگہداشت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ ایسی کوئی صلاحیت رکھتے ہیں نہ اب تک ان کی طرف سے کی گئی کوششیں رنگ لانے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ وہ اس منصب کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں بلکہ دوسروں کو ایسا کوئی بہتر کام انجام دینے سے روک رہے ہیں ۔ یہ لوگ برطانیہ ، فرانس ، اٹلی اور دوسرے ایسے ممالک کی شرم و حیا کے حوالے سے سخت تنقید کرتے ہیں اور ایسے معاشروں کے خلاف آگ اگلتے ہیں ۔ حالانکہ ان معاشروں میں رہنے والوں کا کسی آئیڈیل معاشرے کا کوئی مذہبی تصور نہیں ۔ اس کے باوجود وہاں ایسے کاروبار کا حصہ بننے پر کوئی آمادہ نہیں جو لوگوں کی نظروں میں باوقار نہ ہو ۔ وہاں سڑکوں پر لڑائی جھگڑا کرنے کے واقعات پیش نہیں آتے ۔ کجا کہ کوئی سرکار کی نظروں سے چھپ کر جسم فروشی کا حصہ بنے ۔ ان کے تما م جذبات و میلانات کا محور ملکی قانون اور عوامی پسند و ناپسند ہے ۔ قوم کے سچھ بہی خواہ اور خیر خواہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ پردے کے پیچھے ناجائز کاموں سے رغبت نہ رکھی جائے ۔ یہ پولیس کا بڑا کارنامہ ہے کہ وہ ایسے ناجائز کاروباروں کے خلاف ایکشن لیتے ہیں ۔ یہاں بھی ہماری طرح کی سوچ پیدا ہوجائے تو پورا سماج گناہوں اور جرائم سے بھر جائے گا ۔