شنگھائی کاپوریشن آرگنائزیشن کے وزرا ئے خارجہ کا اہم اجلاس بھارت کے سیاحتی مقام گوا میں ہورہاہے ۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ چین کے علاوہ پاکستان کا وزیرخارجہ بلاول بھٹو اس میں شرکت کے لئے ہندوستان آگئے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ کی ہندوستان آمد 12 سال کے طویل وقفے کے بعد ممکن ہوسکی ہے ۔بلاول کی ہندوستان آمد پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ پاکستان کے کسی اہم عہدیدار کی بھارت آمد کو بڑی اہم پیش رفت مانا جارہاہے ۔ 2019 سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہے ۔ اس دوران گوکہ اطلاعات کے مطابق کسی نہ کسی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان پس پردہ مذاکرات جاری رہے ۔ تاہم حکومتی سطح پر خطے میں سخت تنائو پایا جاتا ہے ۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان سیاسی سطح کے علاوہ فوجی نقطہ نظر سے جنگ کی کیفیت رہی ۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے مبینہ طور امریکہ اور دوسرے کئی حلقوں نے مداخلت کی ۔ اس کے بعد اگرچہ خطے میں امن قائم کرنے میں مدد ملی اور بڑی مشکل سے فوجی تصادم کو ٹالا گیا ۔ تاہم دہلی اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکے ۔ ایک دہائی سے زائد تعطل کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ نے ہندوستان آنے کا اعلان کیا ۔ ان کی ہندوستان آمد کو دونوں ممالک کے تعلقات کے علاوہ عالمی سطح پر ایک اہم اقدام کے طور دیکھا جاتا ہے ۔ کئی سیاسی اور سفارتی حلقوں نے اس پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ۔
ہندوستان میں شنگھائی کاپوریشن آرگنائزیشن کا ایک اہم اجلاس منعقد ہورہاہے ۔ اس اجلاس میں آٹھ ممالک کے وزراء خارجہ شریک ہورہے ہیں ۔ چین اور پاکستان کے علاوہ روس ، بھارت ، قزاکستان ، کرگزستان ، تاجکستان اور ازبکستان کے نمائندے اس اجلاس کا حصہ ہیں ۔ ہندوستان نے پچھلے سال ستمبر میں آرگنائزیشن کی صدارت سنبھالی اور تازہ اجلاس کے لئے ملک کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔ اس اجلاس کے بعد G20 کا ایک اہم اجلاس بھی بھارت میں منعقد ہورہاہے ۔ یہ اجلاس جموں کشمیر میں منعقد ہورہاہے ۔ اس وجہ سے اجلاس کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ گوا اجلاس میں پاکستان کی شرکت کے بعد اندازہ لگایا جارہاہے کہ جی ٹونٹی اجلاس میں بھی حصہ لیا جائے گا ۔ ایسا ہوا تو سیاسی لحاظ سے اس اقدام کے خطے کے حالات پر دور رس اثرات پڑیں گے ۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے خطے میں امن و امان کے لئے تعاون کرنے کی یقین دہانی کی ہے ۔ اس سے پہلے انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان میں موجودہ سرکار بننے سے پہلے دونوں ممالک کے فوجی سربراہوں کے درمیان پس پردہ مذاکرات جاری تھی ۔ ان مذاکرات کے دوران دونوں ممالک نے متنازع مسائل کو مبینہ طور بیس سال کے لئے سرد خانے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس دوران تجارت اور دوسرے تمام منقطع تعلقات کو بحال کرنے کی حامی بھرلی تھی ۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے اسلام آباد دورے کے لئے تاریخ اور طریقہ کار بھی طے کیا جاچکا تھا ۔ لیکن کسی وجہ سے ان فیصلوں پر عمل در آمد ممکن نہ ہوسکا ۔ اب اندازہ لگایا جارہاہے کہ ان تعلقات کو دوبارہ پٹری پر لایا جارہاہے ۔ دونوں طرف کی سرکاروں کو یقین ہے کہ گوا اجلاس میں پاکستان کی شرکت سے تعلقات کو آگے لے جانے میں مدد ملے گی ۔ بلاول کی بھارت آمد سے اندازہ ہورہاہے کہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کو ترک کرکے دوستانہ ماحول قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ پاکستان اس وقت سخت مالی بحران سے گزررہاہے ۔ اس کے دوسرے دوست ممالک نے اسے ایسی صورتحال سے نکالنے میں مدد دینے سے انکار کیا ہے ۔ اس دوران کئی ماہرین نے اسلام آباد حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ہندوستان کی طرف ہاتھ بڑھانے سے بحران کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اس صورتحال سے نکالنے میں ہندوستان مدد فراہم کرے تو بہت حد تک راحت مل سکتی ہے ۔ پاکستان سرکار کو پریشانی ہے کہ ملک میں بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے فوری انتخابات کرانے سے انکار کیا ہے ۔ تاہم چند مہینوں کے بعد ایسا کرنا آئین کے مطابق از حد ضروری ہے ۔ انتخابات سے پہلے حکومت عوام کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے کچھ کرنے کی خواہش مند ہے ۔ اس مرحلے پر مالی بحران پر قابو پایا گیا تو حکومت عوام کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرسکتی ہے ۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ۔ بلکہ اگلے سال ہندوستان میں بھی پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں ۔ اگرچہ بی جے پی کے لئے انتخابات کے حوالے سے کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود حکومت چاہتی ہے کہ انتخابات سے پہلے برصغیر کے حالات پر دہلی کو واضح برتری حاصل ہو جائے۔اس حوالے سے خطے میں موجود ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ضروری ہے ۔
