حال ہی میں قومی سطح کے نیٹ یوجی امتحانات کے نتائج سامنے آئے ۔ جہاں بہت سے امیر گھرانوں کے بچوں نے کامیابی حاصل کی وہاں کئی پسماندہ خاندانوں کے لڑکے لڑکیاں کمال دکھاکر امتحان میں پاس ہوئی ہیں ۔ غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے ان امیدواروں نے واقعی معجزے دکھائے اور کئی کہانیوں کو جنم دیا ۔ امتحان میں جموں کشمیر سے ٹاپ کرنے والا امیدوار پلوامہ کا رہنے والا ہے اور 700 سے زائد نمبرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ پلوامہ سے ایک اور طالب علم بھی امتحان میں پاس ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ NEET کی تیاری کرنے کے علاوہ رنگ سازی کا بھی کام کرتا تھا ۔ اس طرح سے کمائی کرکے اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کامیاب ہوا اور آج کمال صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے نیٹ یوجی کا بھی امتحان پاس کرگیا ہے ۔ اسی طرح سے سرینگر کی دو بہنیں ایک ساتھ یہ امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ سب سے حیران کن کامیابی کولگام کی ان دو بہنوں کی ہے جو مقامی مسجد کے امام کی بیٹیاں ہیں اور دونوں ایک ساتھ یہ امتحان پاس کرچکی ہیں ۔ اس وجہ سے پورے علاقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور امام صاحب کے مقتدیوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی انہیں مبارک باد دینے کے لئے ان کے پاس پہنچ رہے ہیں ۔ امام صاحب کے گھر کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ درجے کے کوچنگ سنٹروں میں پڑھاسکیں ۔ تاہم انہوں نے مبینہ طور سخت محنت کرکے اپنی بیٹیوں کو امتحان کے لئے تیار کرایا ۔ آج ان کی محنت کا نتیجہ سامنے آیا اور امید کی جاتی ہے کہ امام صاحب کی دونوں بیٹیاں ڈاکٹر بن کر اس علاقے کی خدمت کریں گی ۔بیٹیوں کے نیٹ امتحان میں پاس ہونے کے بعد امام صاحب کے علاوہ ان کی بیگم صاحبہ بھی بہت زیادہ مسرور نظر آرہی ہے ۔ کامیابی حاصل کرنے والی بیٹیوں کا کہنا ہے کہ سخت مالی مشکلات کے اندر بھی ان کے والدین نے ان کی ضروریات پورا کیں ۔ اس وجہ سے بیٹیوں نے ہمت نہیں ہاری اور دن رات پڑھائی کرنے کے بعد آج اکٹھے امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔دونوں بہت جلد ڈاکٹر بن جائیں گی ۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ محنت مزدوری کرنے والے والدین اپنے بچوں کو پڑھائی کرنے میں مدد کرتے ہیں جس سے حوصلہ پاکر ان کے بچے شاندار طریقے سے آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔ امام مسجد کی بیٹیوں کی نیٹ میں کامیابی ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ تاہم اس بات پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے کہ دوسرے بچوں کو تعلیم کے میدان میں اس طرح سے آگے بڑھنے کی ترغیب نہیں دی جاتی ہے ۔ ممکن ہے کہ مذکورہ امام اس طرح کا روی نہ اپناتے ہوں ۔ لیکن مولویوں کی اکثریت اس سوچ کی حامل ہے کہ بچوں خاص کر لڑکیوں کو سائنس کی تعلیم لینے سے روکا جائے ۔ ان کے نزدیک سائنس کی تعلیم جہنم لے جانے کا باعث بن جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مولوی دینی تعلیم کو ہی سب مسائل کا حل مانتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنس اور حساب کی تعلیم حاصل کرنا آخرت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ ایسے مولوی بچوں کو درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ غریب والدین کے بچوں کو مدرسوں میں داخل کراتے ہیں جہاں انہیں خیرات میں حاصل کئے گئے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیا دی جاتی ہیں ۔ پھر انہیں درس نظامی کے چند مخصوص اسباق پڑھائے جاتے ہیں تاکہ انہیں دنیا وی علم کی ہوا نہ لگ جائے ۔ اس کے علاوہ کم عمر کے لڑکوں کو دس ، بیس اور چالیس دن کے گشتوں پر لیا جاتا ہے ۔ جہاں انہیں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ فزیکس اور کیمسٹری کی کتابیں کافروں کی تیار کی ہوئی کتابیں ہیں ۔ ان کی پڑھائی پر زندگی صرف کرنا جہنم کی آگ کے لئے خود کو تیار کرنا ہے ۔ یہ مولوی ایسے الزامات سے انکار کرتے ہیں ۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ انہیں کھل کر بتایا جاتا ہے کہ دین اور سائنس ایک دوسرے کے ضد ہیں ۔ مسلمان کے لئے دونوں کو اکٹھا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ آج پتہ چلا کہ امام صاحب اپنی بچیوں کو یہی کفر اور اسلام کی دشمن کتابیں پڑھاتے رہے ۔ نمازوں کی امامت میں جو اجرت ملی اس سے بچیوں کو سائنس کی اچھی تعلیم دلاتے رہے ۔ اس کے بجائے اپنے غریب مقتدیوں کے بچوں کو صبح یا شام درس گاہ آنے پر زور دیتے رہے ۔ ان بچوں کو اسلام کا محافظ بننے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ چین اور روس میں اسی طرح سے اسلام کو محفوظ بنایا گیا ورنہ وہاں اسلام کا جنازہ نکل جاتا ۔ ایسے حالات کو کشمیر سے مشابہت دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بچے درس گاہوں میں داخل کرانے پر زور دیا جاتا ہے ۔ اس ذریعے سے اسلام کی کہاں تک حفاظت ہوتی ہے وہ الگ سوال ہے ۔ لیکن یہاں اسی کا چرچا ہوتا ہے ۔ غریب اور پسماندہ طلبہ کو مدرسوں کی زینت بنایا جاتا ہے ۔ ان کے نام پر بہت کچھ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اپنے لئے آرام وآسائش کے سامان بہم کرائے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس طلبہ کو روکھی سوکھی دی جاتی ہے ۔ ان کی صحت بگڑ جاتی ہے ۔ ان کے کولہوں اور چھاتی کی ہڈیاں دور سے نظر آتی ہیں ۔ ان کی ہڈیاں گنی جاسکتی ہیں ۔ اس کے برعکس اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے اچھی اچھی غذائیں اور اچھے اچھے سامان فراہم کئے جاتے ہیں ۔ ان کے لئے سائنس اور ڈاکٹری کی تعلیم جائز ہے ۔ غریبوں کے لئے ایسا کرنا گناہ کبیرہ کے برابر ہے ۔ یہ دوہرا معیار آخر کب تک ؟ اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ۔جب ہی قوم ترقی کی طرف گامزن ہوگی ۔
