پیر کو بعد دوپہر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے دسویں جماعت کے امتحانی نتائج منظر عام پر لائے ۔ اس سے چند روز پہلے بارھویں جماعت کے امتحانی نتائج کا اعلان کیا گیا تھا ۔ان کے لئے امتحانات مارچ میں لئے گئے تھے ۔ سرکار نے امتحانی کلینڈر کو بدل کر نومبر کے بجائے مارچ میں امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ۔ مقامی طور پر اس فیصلے کو پسند نہیں کیا گیا ۔ طلبہ بھی اس تبدیلی کے لئے تیار نہ تھے ۔ سرکار نے اپنے فیصلے کی کچھ وجوہات سامنے لاکر اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کیا ۔ دو ڈھائی مہینے مزید تیاری کے میسر آنے کے بعد بورڈ کی طرف سے مارچ میں امتحانات کا انعقاد کیا گیا ۔ امتحانات مجموعی طور پرسکون ماحول میں بغیر کسی مداخلت کے منعقد کئے گئے ۔ اب امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا ۔ بارھویں جماعت میں نتائج 65 فیصد رہے جبکہ دسویں جماعت کے اعداد و شمار 78 فیصد نتائج ظاہر کرتے ہیں ۔ تعلیم و تعلم کا عمل اور اس میں بہتر نتائج نہ صرف طلبہ کی انفرادی کامیابی ہے بلکہ یہ پوری قوم کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہے ۔ اس طرح سے طلبہ کا تعلیم کی طرف رغبت دکھانا بڑی حوصلہ افزا بات ہے ۔ پورے ملک میں مسلم کمیونٹی کی نئی نسل کا تعلیم کی طرف رجحان بہت کم بتایا جاتا ہے ۔ پچھلے سال ہوئی سروے کے مطابق تمام طبقوں کے برعکس مسلمانوں کے اندر تعلیم کی طرف رغبت کم ہوتی ہے ۔ اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ کشمیر میں والدین اپنے بچوں کو نہ صرف تعلیم بلکہ معیاری تعلیم دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دلچسپی کو کم نہ ہونے دیا جائے ۔
دسویں جماعت کے بجائے بارھویں جماعت کے امتحانی نتائج کم بتائے جاتے ہیں ۔ ٹھیک ہے کہ بارھویں جماعت کے لئے امتحانات میں شامل ہوئے طلبہ میں سے بڑی تعداد میں طلبہ کامیاب ہوئے ۔ لیکن جو 35 فیصد طلبہ ناکام ہوئے ان کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے ایسے طلبہ شامل ہیں جو نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی مختلف کوچنگ سنٹروں میں آگے کے لئے تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ آج ان کا رزلٹ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ وہ امتحان پاس کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ ایسے طلبہ کی تعداد بتائی جاتی ہے ۔ فیل ہوئے ان طلبہ میں سے بہت زیادہ تعداد میں طلبہ اسی سال بطقر پرائیویٹ امیدوار امتحان میں شامل ہونگے ۔ تاہم اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ان ہی میں سے کئی طلبہ سماجی برائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ڈپریشن کا شکار ہوکر ایسے نوجوان منشیات کے عادی بن جاتے ہیں ۔ بلکہ دوسری برائیوں اور جرائم کو فروغ دیتے ہیں ۔ یہی حال دسویں جماعت میں فیل ہوئے طلبہ کا بھی ہوسکتا ہے ۔ اسکول تعلیم کی انتظامیہ نتائج کو حوصلہ افزا قرار دے کر جشن منانے میں مصروف ہے ۔ حالانکہ اس بات پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے کہ دسویں کے بجائے بارھویں جماعت کے امتحانی نتائج کم تر کیوں رہے ۔ بارھویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے والے سخت محنت کرتے ہیں ۔ سرکار اور والدین کی طرف سے بارھویں جماعت کی تعلیم کے لئے زیادہ سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔ لیکن عین موقع پر سب کچھ ضایع ہوتا ہے ۔ وجوہات عیاں ہیں کہ بارھویں جماعت کو پڑھانے کی طرف متعلقہ اساتذہ سرے سے کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ بلکہ جن نتائج پر یہ آج جشن منارہے اور بنگڑے ڈال رہے ہیں اس میں محکمے کی انتظامیہ اور دوسرے عمل کا صفر کے برابر بھی رول نہیں ۔ کئی ایسے اساتذہ کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے بجائے بڑی بے شرمی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ اس پر توجہ دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ ہائر اسکنڈری اسکولوں میں طلبہ صرف رجسٹڑ پر داخلہ لیتے ہیں ۔ ایسے داخلے ان کی ایک مجبوری ہے تاکہ بورڈ کی طرف سے لئے جانے والے امتحانات میں بروقت شامل ہوسکیں ۔ ورنہ کسی طالب علم یا والدین کی اس کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ طلبہ ان اسکولوں میں آکر اپنا مستقبل تباہ کریں ۔ بہت بڑی تعداد میں جو طالب علم شاندار کامیابی دکھاپائے ہیں وہ صرف کوچنگ سنٹروں میں ان کی پڑھائی سے ممکن ہوسکا ہے ۔ یہی طالب علم محض ہائر اسکنڈری میں کام کرنے والے اساتذہ پر تکیہ کرتے تو آج فیل ہوکر آنسو بہاتے نظر آتے ۔ دسویں جماعت میں بھی جو شاندار کامیابی دکھانے والے طلبہ پرائیویٹ اسکولوں کے طالب علم ہیں ۔ کئی ایسے طلبہ بھی نظر آتے ہیں جو سرکاری اسکولوں کے طالب علم ہیں ۔ لیکن یہ اکا دکا طالب علم ہی ہیں ۔ پرائیویٹ اسکولوں سے بڑی تعداد میں طلبہ زیادہ نمبرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بہت کم طلبہ پر پڑھائی کے لئے زور زبردستی کرنا پڑتی ہے ۔ طلبہ تعلیم میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ والدین بھی ان پر اپنا تن من دھن نثار کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو پوری کشمیری قوم آگے جاکر اس کے اچھے نتائج دیکھ پائے گی ۔
