سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ سرینگر میں جی ٹونٹی سیاحتی اجلاس کے بعد سیاحوں کی کشمیر آمد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں ریکارڈ توڑ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آنے والے مہینوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں مزید اضافہ ہوگا ۔ یاد رہے کہ سرینگر میں جی ٹونٹی ٹورازم اجلاس 22 مئی سے 25 مئی تک منعقد کیا گیا تھا ۔ اجلاس میں ایسے بیشتر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جو G20 میں شامل ہیں اور کئی امور کو لے کر باہم اشتراک کے خواہش مند ہیں ۔ اجلاس کے کامیاب انعقاد کے بعد سرکار نے امید دلائی تھی کہ آنے والے مہینوں میں کشمیر میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوگا ۔ اب کہا جاتا ہے کہ نہ صرف ملک کے مختلف حصوں سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی بڑی تعداد میں سیاح سرینگر وارد ہورہے ہیں ۔ ادھر محکمہ سیاحت کا کہنا ہے کہ رواں سال کے اب تک کے چھے مہینوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے سیاحتی مقامات کی سیر کی ۔ پہلے ٹولپ گارڈن کے حوالے سے پیش کئے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا کہ پچھلے سالوں کی نسبت بڑی تعداد میں لوگ گل لالہ باغ دیکھنے کے لئے آئے ۔ اب کہا جاتا ہے کہ مغل باغات اور دوسرے سیاحتی مقامات کی سیر کو بڑی تعداد میں لوگ آئے ۔ اس حوالے سے یہ اہم اطلاع بھی سامنے آئی کہ کئی سالوں کے وقفے کے بعد غیرملکی سیاح بڑی تعداد میں کشمیر آئے اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ ایسے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوگا ۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ مقامی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح کشمیر آنا پسند کررہے ہیں ۔ یہاں کے قدرتی حسن کو دیکھ کر سیاحوں کا یہاں آنا اچنبھے کی بات نہیں ۔ لیکن پچھلی تین دہائیوں کے دوران کشمیر میں جنگ کی جو صورتحال رہی اس نے غیر ملکی سیاحوں کی آمد پر روک لگادی ۔ اس دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے سیاحوں کی آمد پر روک لگادی ۔ سیاحوں کے اغوا اور ان کی ہلاکت کے پس منظر میں کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو کشمیر نہ آنے کا مشورہ دیا ۔ بلکہ مقامی سرکاروں نے بھی اس حوالے سے احتیاط بھرتنے کا مشور دیا ۔ اس کے بعد غیر ملکی سیاحوں کی کشمیر آمد منقطع ہوگئی ۔ اس طرح کے حالات کے اندر ایسا ہونا یقینی ہے ۔ بلک شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا ۔ ایسی صورتحال کی وجہ سے کشمیر کی سیاحتی صنعت بالکل مفلوج ہوکر رہ گئی ۔ اس صنعت سے وابستہ افراد نے دوسرے مشغلے تلاش کئے اور اپنے لئے روزگار کے دوسرے وسائل اختیار کئے ۔ اس طرح سے سیاحت کی صنعت پرلوگوں کا انحصار پوری طرح سے ختم ہوگیا ۔ اب اچانک پچھلے کئی سالوں سے سرکار نے اس صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کی طرف توجہ دینا شروع کی ۔ ملی ٹنسی کے واقعات میں کمی کے پیش نظر عوامی حلقے بھی چاہتے ہیں کہ سیاحتی صنعت کو فروغ دیا جائے ۔ حکومت کی بھی کوشش ہے کہ سیاحوں کو پھر سے کشمیر آنے پر مائل کیا جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ حالیہ G20 اجلاس سے اس معاملے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ غیر ملکی سیاح بھی کشمیر آنے پر تیار ہورہے ہیں ۔ ایسے درجنوں سیاح پہلے ہی یہاں آچکے ہیں جبکہ بہت سے مزید آنے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ خبر رساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ایسے سیاحوں کی کشمیر آمد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے سیاح صرف سرینگر یا اس کے مضافات میں جانے تک محدود نہیں ۔ بلکہ سرینگر سے باہر کئی جگہوں کی سیر کرنا پسند کرتے ہیں ۔ دیہی سیاحت کو آہستہ آہستہ فروغ مل رہا ہے ۔ سیاحوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں ۔ پہلے سیاح سرینگر یا زیادہ سے زیادہ پہلگام و گلمرگ جانا پسند کرتے تھے ۔ لیکن اب یہ لوگ دوردراز دیہات اور پہاڑی علاقوں میں جاکر وہاں کا رہن سہن اور لوگوں کا طرز زندگی دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ شہروں میں رہنے سے تنگ آئے یہ سیاح پہاڑوں اور جنگلوں میں آباد لوگوں سے گھل مل جانا پسند کرتے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ ایسے لوگوں کے کلچر کا مشاہدہ کریں اور وہاں کے قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوجائیں ۔ اس وجہ سے دیہی سیاحت کو فروغ ملنے کا امکان ہے ۔ حکومت نے ان باتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے پہلے ہی سیاحتی صنعت سے جڑے لوگوں کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے علاقوں میں جانکاری کیمپ منعقد کرکے وہاں کے نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے ۔ سیاحوں کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کرنے پر توج دینے کے علاوہ عام لوگوں کو اس حوالے سے جانکاری فراہم کرنا ہوگی ۔ اس کے علاوہ سیاحوں کو اس بات سے واقفیت دلانا ضروری ہے کہ دیہی علاقوں کی سیر کرکے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔ اندازہ یہی ہے کہ سیاح کشمیر آنے کی کوشش کریں گے ۔ تاہم یہاں آکر انہیں بہتر ایام گزارنے میں مدد فراہم کرنا ہوگی ۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ عوام اور سرکار اس معاملے میں یکجا ہوکر کام کریں ۔
