پچھلے کئی روز سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گشت کررہی ہے کہ مرکزی سرکار نے امریکہ سے سیب در آمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس خبر کو وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ سے جوڑا جاتا ہے ۔ کئی خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ اس موقعے پر امریکہ سے سیب در آمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا جس کے مطابق امریکہ کے سیب بہت کم کسٹم ڈیوٹی پر در آمد کئے جارہے ہیں ۔خبر کو اس انداز میں پیش کیا جارہا ہے جیسے یہ کشمیری میوہ صنعت کو تباہ کرنے کی کوئی سازش ہے ۔اس حوالے سے خبر کو زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہاہے ۔ اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ بازار میں کم قیمت کے امریکی سیب موجود ہونے کی صورت میں کشمیری سیب خریدنے پر لوگ توجہ نہیں دیں گے ۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ اب کشمیری سیبوںکے لئے محض 60 فیصد مارکیٹ موجود ہوگا جس وجہ سے سیبوں کی فروخت کم ہوگی ۔ اس خبر سے کسانوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ پچھلے سال اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب یہ خبر سامنے آئی کہ ایران سے بڑی مقدار میں سیب درآمد کئے گئے جو کم نرخوں پر فروخت ہورہے ہیں ۔ اس کے بعد کشمیر کی منڈیوں میں موجود سیب مبینہ طور فروخت کرنے میں دشواریاں پیش آئیں اور لاگت سے بھی کم قیمت پر سیب فروخت کئے گئے ۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا ۔ اب ایک بار پھر اسی طرح کی خبریں سوشل میڈیا اور اخباروں میں گشت کررہی ہیں ۔ کسانوں اور سیب صنعت سے وابستہ کئی ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اس سال بڑی مقدار میں سیب منڈیوں میں پہنچ کر فروخت ہونگے ۔ بلکہ حکومت کی طرف سے بھی یہی امید دلائی جارہی تھی کہ سیب برآمد کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ کسان توقع کررہے تھے کہ بہتر کوالٹی کے سیب بازار میں پہنچانے کے بعد ان کی معقول قیمت وصول ہوگی ۔ ابھی اس طرح کی سرگرمیوں کا آغاز کیا جارہاتھا کہ کسی نے ڈھول ڈالا کہ امریکی سیب بازار میں آرہے ہیں جس سے کشمیری سیبوں کے لئے خریدار تلاش کرنا مشکل ہوگا ۔ یہ صحیح ہے کہ کم قیمت پر سیب بازار میں موجود ہونے کے سبب خریدار کشمیری سیب خریدنے کے بارے میں سوبار سوچنے کے بعد ہی فیصلہ لے گا ۔ اس کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خریدار کے لئے قیمت سے زیادہ کوالٹی کی اہمیت ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ کشمیری سیبوں کا امریکہ سمیت دنیا کا کوئی بھی سیب مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ سیب بہتر انداز میں کسی دھوکہ دہی کے بغیر منڈیوں تک پہنچائے جائیں تو خریدار ملنا مشکل نہیں ہے ۔
کشمیری سیبوں کی منڈیوں میں ڈیمانڈ کم ہونے کے موضوع پر بحث صرف کشمیر میں ہورہاہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ بہت سے حلقوں کو اس خبر سے دلچسپی ہے ۔ دہلی مخالف سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ایک بڑا موضوع ہے ۔ اس کے علاوہ بڑے بیوپاریوں کواس خبر سے کسانوں کے استحصال کرنے کا ہتھیار ہاتھ آیا ۔ ایسے بیوپاری اور منڈیوں میں بیٹھے ان کے ایجنٹ چاہتے ہیں کہ کسانوں کو بلیک میل کرنے کا موقع ملے ۔ امریکی سیبوں کی در آمد اس مقصد کو پورا کرنے کا بہترین ذریع ہے ۔ ابھی امریکی سیب دہلی پہنچے بھی نہ تھے کہ اس خبر کی تشہیر شروع ہوگئی ۔ کشمیر سے چند گاڑیاں ہی سیب لے کر دہلی روانہ ہوئی تھیں کہ ساتھ ہی ساتھ امریکی سیبوں کا چرچا کیا جانے لگا ۔ سیب صنعت کے خیر خواہوں کو چاہئے تھا کہ ایسے موقعے پر یہ بات واضح کریںکہ ایسے معاہدوں سے کشمیری سیب پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ پچھلے سال ایرانی سیبوں نے کشمیر سیب صنعت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے از خود اس کو خسارے سے دوچار کیا ۔ آغاز میں ہی گھٹیا کوالٹی کے سیب ڈبوںمیں بھر کر اے گریڈ بنادئے گئے اور دہلی اور دوسرے شہروں کو بھیجے گئے ۔ اسی طرح کئی کئی روز ہائی وے کو بلا وجہ بند رکھنے سے سیبوں کو بر وقت منڈیوں میں پہنچانا ممکن نہ ہوسکا ۔ اس کے علاوہ یہاں کشمیری سیبوں سے زیادہ ایرانی سیبوں کا چرچا کیا گیا ۔ باہر کے ممالک سے میوے برآمد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ یہ سلسلہ بہت پہلے سے جاری ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنی ہے کہ سیب صرف کشمیر میں تیار نہیں ہوتے ۔ اب دہلی ، ہماچل اور دوسرے کئی علاقوں میں بھی سیبوں کے باغات پائے جاتے ہیں ۔ جب ایسے علاقوں کو امریکی سیبوں پر کوئی تشویش نہیں ۔ حالانکہ کشمیری سیب ان سے کہیں زیادہ اچھے اور لوگوں کے لئے پسندیدہ ہیں ۔ پھر بھی ہم نے شروع میں ہی اپنے سیبوں کے بارے میں افواہیں اڑانا اور بازار میں ڈیمانڈ کم ہونے کا رونا زور و شور سے شروع کیا ۔ بازار میں مدمقابل کا مقابلہ شور مچانے سے نہیں بلکہ بہتر کوالٹی پیش کرکے کیا جاسکتا ہے ۔ کسانوں کو مایوس ہوکر کسی کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہے ۔ ایسا کرکے استحصالی عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔
