حکومت نے واضح کیا ہے کہ بجلی چوری روکنے کے لئے میٹر نصب کرنے کے خلاف احتجاج کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ منصوبے کو حتمی شکل دی گئی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جائے گی ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی میٹروں کی تنصیب ایک ملک گیر مہم ہے ۔ ملک کے مختلف حصوں میں پہلے ہی اس طرح کے جدید میٹر نصب کئے گئے ہیں ۔ اس لئے جموں کشمیر میں اس حوالے سے احتجاج بے مقصد ہے ۔ یاد رہے کہ حکومت نے جب سے میٹر نصب کرنے کی مہم شروع کی مختلف علاقوں میں اس مہم کے خلاف لوگوں خاص کر خواتین نے سخت احتجاج کیا اور یہ احتجاج تاحال جاری ہے ۔ جموں میں اس حوالے سے مختلف ٹریڈ یونینوں نے اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ معزز شہریوں کو رسوا کرنے کی مہم ہے ۔ ٹریڈ یونین لیڈروں نے کہا کہ ترسیلی نظام میں بہتری لانے اور بجلی کو ضایع ہونے سے بچانے میں ناکامی کے بعد سرکار عام شہریوں کو تنگ کررہی ہے ۔ انہوں نے اس طرح کے کسی بھی انتظام کو صارفین مخالف قرار دیتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا ۔ ادھر پاور ڈیولپمنٹ محکمے کے علاوہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ احتجاج کا کوئی بھی وجہ نہیں ہے ۔ اس طرح کے احتجاج کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
سرکار نے پہلے سمارٹ میٹر اور بعد میں پری پیڈ میٹر نصب کرنے کا اعلان کیا ۔ اس اعلان پر پچھلے کئی ہفتوں سے عمل در آمد جاری ہے ۔مختلف علاقوں میں اس طرح کے میٹر لگائے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بجلی کی فراہمی پر سرکار کو جو خرچہ اٹھانا پڑتا ہے وہ اس مد میں آمدنی سے بہت زیادہ ہے ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں جو تفاوت پائی جاتی ہے وہ دن بہ دن کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔ اس حوالے سے حال ہی میں جو بیان سامنے آیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کو خسارہ برداشت کرنے کی اب سکت نہیں رہی ہے ۔ سرکار چاہتی ہے کہ صارفین کو مفت بجلی کی عادت سے پرہیز کرکے قیمت ادا کرکے ہی بجلی استعمال کرنی چاہئے ۔ سرکار نے مبینہ طور تمام پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اس حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے واشگاف کیا گیا کہ عوام اس قدر عیاشی کررہے ہیں جس کو دیکھ کر بجلی کی مفت خوری کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔ شادیوں کے علاوہ فون پر اٹھائے جانے والے اخراجات کی مثال دیتے ہوئے اس بات کو بلا جواز قرار دیا گیا کہ لوگ بجلی کے مصارف اٹھا نہیں سکتے ۔ حالانکہ کئی حلقوں کا اب بھی کہنا ہے کہ غریب عوام کے لئے سرکاری قیمت اور نظام کے مطابق بجلی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تاہم سرکار ایسے دلائل قبول کرنے کو تیار نہیں اور ہر حال میں میٹر نصب کرنے کے منصوبے کی عمل آوری پر تلی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کے خلاف احتجاج کو بلا مقصد قرار دیتے ہیں ۔ سرکار نے پہلے مرحلے کا کام بہت جلد مکمل کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں گائوں دیہات میں میٹر نصب کئے جارہے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بات مد نظر رکھنا ہوگی کہ محکمے کے ملازم اس معاملے میں صارفین کی اب کوئی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ پچھلے پچاس سالوں کے دوران ملازمین نے ہی بجلی چوری کو بڑھاوا دیا اور اس طرح کے گھپلوں کو روکنے میں محکمے کی کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی ۔ اب ان کی اپنی نوکریاں دائو پر لگی ہوئی ہیں ۔ ایسے میں وہ میٹر نصب کرنے یا فیس میں کوئی تفاوت کرنے کے حق میں نہیں ۔ محکمے کے چپراسی سے لے کر اس کے سربراہ تک اب سرکاری احکامات پر عمل کرنے کو تیار ہیں ۔ ملازمین اپنے مفادات کی حفاظت میں لگے ہیں ۔ صارفین کے مفاد سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ محکمے کے سرگرم کارکنوں کی بے عزتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ یہ دیکھے بغیر کہ ان ملازمین نے سخت ترین حالات میں بجلی محکمے کی شان بحال رکھنے میں اپنا خون پسینہ بہایا ۔ بلکہ کئی ایک نے اپنی جانیں بھی نچھاور کیں ۔ انہیں لتاڑنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔پھر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بجلی چوری کے علاو ہ اس کے بے جا استعمال کو طول دینا صحیح سوچ نہیں ۔ بعض سیاسی حلقوں نے پہلے ہی بجلی میٹر نصب کرنے کے عمل کو سیاسی ایشو بنایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی ۔ جب ایسے نعرے لگائیں جائیں تو عوام کا احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آنا غیر متوقع نہیں ۔ یہاں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ سرکار بجلی نظام کو بہتر بنانے کا جو کام کررہی ہے اس میں امیر وغریب کی کوئی تفاوت نہیں رکھی گئی ہے ۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہاہے ۔ غریب عوام کے لئے سہولیات بحال رکھی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت نہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی روزمر ہ کی ضروریات پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ان کے لئے بجلی کے کچھ یونٹ مشخص کئے جائیں تو ان کا بھلا ہوسکتا ہے ۔ بصورت دیگر ان پر بوجھ بڑھ جانے کا خدشہ ہے ۔