لوگ ابھی اتک اس بات پر حیران ہیں کہ ایل جی نے ذولجناح کے جلوس میں آکر بذات خود آکر شرکت کی ۔ پہلے بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ 8 محرم کے بعد 10 محرم کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت دی جائے گی ۔ تاہم حکومت نے ایسے تمام اندازے غلط ثابت کئے اور عاشورہ کے موقعے پر روایتی جلوس نکالنے کی لوگوں کی مانگ پوری کی ۔ عوام پچھلی تین دہائیوں سے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ عاشورہ کے روز ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن کسی نہ کسی بہانے ایسے مطالبے مسترد کئے گئے ۔ اس سال پہلی بار ایل جی انتظامیہ نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا اور لوگوں کا مطالبہ مانتے ہوئے 10 محرم کو جلوس نکالنے کی اجازت دی ۔ اس سے پہلے 8 محرم کو جو جلوس سرینگر کے سب سے مصروف بازاروں سے نکالا گیا اور پر امن طریقے سے اختتام پذیر ہوا ۔ اس پر عوامی حلقوں میں ایل جی کی بڑی سراہنا کی گئی ۔ اس کے بعد انتظامیہ نے اگلے روز ذولجناح کا جلوس نکالنے کی بھی اجازت دی ۔ نہ صرف اجازت دی بلکہ ایل جی نے از خود بوٹہ کدل جاکر جلوس میں شمولیت کی ۔ اس موقعے پر انہوں نے ذوالجناح کو چادر اور عزہ داروں کو شربت پیش کی ۔ یہ بڑا ہی خوش آئند منظر تھا ۔ وہاں موجود عزہ داروں نے ایل جی کے اس طرز عمل پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔
محرم کے ایام میں جلوس نکالنا اور عزہ داروں کی طرف سے مرثیہ خوانی ایک مذہبی معاملہ ہے ۔ یہ سیاست سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا ہے ۔ لیکن پچھلے تیس سالوں کے دوران اسے ایک پیچیدہ مسئلہ بنایا گیا اور جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ زیادہ تر یہی کہا گیا کہ شہر میں گن گرج کی وجہ سے خوف کا ماحول ہے ۔ اس طرح کے ماحول میں جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ کئی لوگ کہتے تھے کہ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔ لیکن حکومت نے کسی کی بھی نہ سنی ۔ اس دوران جو حکومتیں بنیں عاشورہ کے حوالے سے سب کا ایک ہی فیصلہ تھا کہ جلوس نہیں نکالا جائے گا ۔ کئی بار عزہ داروں نے ممانعت کے باوجود جلوس نکالنے کی کوشش کی ۔ لیکن ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں ۔ درجنوں عزہ داروں کو گرفتار کیا گیا اور ایسے جلوسوں کو ناکام بنایا گیا ۔ تاہم موجودہ سرکار نے اس حوالے سے اپنا الگ موقف اختیار کیا اور جلوس نکالنے کی اجازت دی ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ سرکار نے پہلے شہر کے حالات ٹھیک کئے ۔ ہر علاقے میں امن قائم کیا ۔ یہ بات کئی بار دہرائی گئی کہ اب نوجوان سڑکوں پر پتھر بازی کے بجائے تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دیتے ہیں ۔ ایل جی نے کئی بار واضح کیا کہ ہڑتالی کلینڈروں اور پتھر بازی کا زمانہ گزر گیا ہے ۔ محرم کے جلوس نکالنے کی اجازت دے کر انہوں نے اپنے بیان کی تصدیق کی کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں عملی طور بھی ایسا دکھا دیا ۔ اب سرینگر کی سڑکوں پر عام شہریوں کا خون بہانے کے بجائے محرم کے جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ پتھر بازی کے بجائے حسین ؐ کے نام پر آنسو بہائے جاتے ہیں ۔ ان جلوسوں کو دیکھ کر وہ لوگ دھنگ ہوکر رہ گئے جو یہ سمجھتے تھے کہ شہر میں امن نہیں بلکہ خاموشی ہے ۔ ایسے لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ موقع ملتے ہی نوجوان حکومت کے خلاف پھر پتھر اٹھائیں گے ۔ لیکن اب نوجوان زیادہ تر سرکاری احکامات کی ہی پیروی کرتے نظر آتے ہیں ۔ عاشورہ کے جلوس ان لوگوں کے لئے حوصلہ افزا ہیں جو کشمیر میں امن و امان کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے کئی دہائیوں کے بعد عاشورہ کے جلوس کی برآمدگی اور اس میں ایل جی کی شرکت بڑی ہی خوش آئند بات ہے ۔ عاشورہ کے اس جلوس کا سفر مکمل کرنے میں کئی گھنٹے لگے ۔ اس موقعے پر راستے میں لوگوں نے عزہ داروں کے لئے جگہ جگہ مشروبات کا انتظام کیا تھا اور نوجوان بڑی تعداد میں یہ مشروبات پیش کرتے تھے ۔ ان نوجوانوں کے چہروں پر کھیلنے والی مسکراہٹ دیکھنے کے لائق تھی ۔ ایسے بہت سے نوجوانوں نے زندگی میں پہلی بار اس طرح کے مناظر دیکھے ۔ کئی نوجوانوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ جموں کشمیر پولیس نے بھی ایسے کئی اسٹال لگاکر عزہ داروں کی خدمت کی ۔ اسی طرح محکمہ صحت نے عزہ داروں کی سہولت کے لئے طبی سہولیات کا انتظام کیا ہوا تھا ۔ نوح کرتے اور عزہ داری کے دوران مرثیہ پڑھنے والے بڑے ہی اطمینان سے راستوں سے گزرتے رہے ۔ کئی شیر خوار بچوں کو بھی اپنے والدین کے ہمراہ جلوس میں موجود دیکھا گیا ۔ اس طرح سے شیعہ برابدری کے ہزاروں لوگوں نے ماتمی جلوس میں شرکت کرکے امام حسین ؐ کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ۔ بڈگام ، گاندربل ، اننت ناگ اور پلوامہ کے کئی شیعہ علاقوں میں بھی اس طرح کے جلوس نکالے گئے ۔ ان جلوسوں میں سنی عقیدت کے لوگوں خاص کر نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ انتظامیہ نے ہر جگہ اس طرح کے جلوسوں کے لئے سازگار ماحول بنانے میں مدد دی ۔ سرکار کے تعاون کرنے سے بہت سی جگہوں پر خاص طور سے دوردراز والے علاقوں میں بڑے کامیاب جلوس نکالے گئے ۔
