لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں نئی تبدیلی سے امن قائم ہونے کے علاوہ اقربا پروری پر مبنی نظام ہمیشہ کے لئے ختم ہوا ہے ۔ ہفتے کو ایک تقریب کے دوران نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایل جی نے اس بات پر زور دیا کہ اب تخریب اور تشدد کو واپس لانا ممکن نہیں ۔ یہاں امن اور سلامتی کا جو نظام قائم ہوا ہے اس کے اندر کسی بھی شہری کا استحصال ممکن نہیں رہا ہے ۔ انہوں نے نئی تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ لوگوں کو آزادی سے جینے کا موقع مل رہاہے اور اقربا پروری کا جو نظام پایا جاتا تھا وہ مکمل طور ختم ہوچکا ہے ۔منوج سنہا کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بد امنی کی وجہ سے لوگ جن مشکلات سے دوچار تھے انہیں پوری طرح سے چھٹکارا مل چکا ہے ۔ خاص طور سے رشوت اور اقربا پروری کو پوری طرح سے ختم کیا گیا ہے ۔ اس دوران یو ٹی کے چیف سیکریٹری نے رشوت سے پاک جموں کشمیر ڈے کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ آن لائن سروس فراہم کرنے سے رشوت ستانی پر قابو پایا گیا ہے ۔ انہوں نے اس بات کو فخر کے ساتھ بتایا کہ اب تک 675 سرکاری خدمات کو آن لائن کیا گیا ہے ۔ آن لائن سروس سے عام شہریوں کو اپنا کام بغیر رشوت کرانے میں کافی مدد ملی ہے ۔ چیف سیکریٹری نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ای ٹینڈرنگ اور ای آفس جیسی تکنیکی سہولت سے رشوت پر قابو پانے میں مدد ملی ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ ان کی کوششوں سے عوام کو بدامنی اور شورش کے علاوہ رشوت اور اقربا پروری سے نجات ملی ہے ۔
سیاسی حکومتوں کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اپنے کارکنوں کو فائدہ پہنچانے اور ووٹ بینک محفوظ بنانے کے لئے طے شدہ اصولو ضوابط کے بجائے رشوت اور سفارشوں سے کام چلایا جاتا ہے ۔ اس طرح کے نظام کے اندر اقربا نوازی ایک عام بات ہے ۔ پچھلے طویل عرصے سے عوام سیاسی جماعتوں سے اس بات پر ناراض تھے کہ میرٹ کے بجائے اپنے آس پاس رہنے والوں میں نوکریاں بانٹ دی جاتی ہیں ۔ نوکری فراہم کرنے کے ہر معاملے پر شک و شبہات کا اظہار کیا جاتا تھا ۔ بلکہ سچ بھی یہی ہے کہ ایسے زمانے میں کبھی بھی صحیح امیدواروں کا انتخاب نہیں کیا گیا ۔ بلکہ رشتہ داروں ، دوستوں اور سیاسی کارکنوں کو ترجیح دے کر میرٹ کا قتل کیا گیا ۔ اس حوالے سے کسی طرح کا اعتراض بھی قبول نہیں کیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ ریکروٹمنٹ بورڈ اور پی ایس سی میں جو افراد تعینات رہتے تھے وہ بھی سیاست دانوں کے کہنے پر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بناتے تھے ۔ ایسے ممبران اسی وقت تک ان اداروں میں ٹک سکتے تھے جب تک انہیں سیاست دانوں کی سرپرستی میسر رہتی تھی ۔ یہ سرپرستی جب ہی ممکن تھی کہ حکومت کے ساتھ صحیح اور غلط ہر معاملے میں تعاون کیا جائے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقرریوں کا پورا نظام گڑ بڑ کا شکار تھا اور کہیں بھی صحیح صلاحیتوں کے مالک افراد کو تعینات نہیں کیا جاتا تھا ۔ ایسی شکایات سے تنگ آکر لوگ عدالتوں کو رخ کرتے تھے ۔ لیکن وہاں مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے فوری انصاف حاصل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے رشوت اور دھاندلیوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے جو تحقیقاتی اور تفتیشی ادارے بنائے تھے وہ ان بے ضابطگیوں کے بڑے اڈے بن گئے تھے ۔ ایسے اداروں کے اندر بڑے بڑے مافیا کام کرتے تھے جو رشوت لینے والوں کے بجائے اس طرح کی شکایت کرنے والوں کو ہی پریشان کرتے تھے ۔ رشوت کے معاملات ایسے اداروں کے لئے کمائی کا بڑا ذریعہ بن گئے تھے ۔ ایسے اداروں میں تعینات ہونے کے لئے اہلکار کافی رشوت دیتے تھے اور پھر یہاں آکر وہ رشوت کا کاروبار کرتے تھے ۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ اقربا پروری اور دوسری بے انصافیوں سے لوگوں کو نجات مل گئی ۔ جموں کشمیر میں پچھلے تین سالوں کے دوران بھی کئی موقعوں پر اس طرح کی شکایات سامنے آئیں ۔ تاہم سرکار نے فوری کاروائی کرکے انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ پولیس محکمے کے کئی اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرکے تحقیقات شروع کیا گیا ۔سیاسی حکومتوں کے اندر اس طرح کا کاروبار کوئی عجیب بات نہیں ۔ لیکن کشمیر میں اس حوالے سے عجیب صورتحال تھی ۔ حکومتی وزیر اور بیوروکریٹ کھلے عام رشوت لیتے تھے ۔ شاید یہ صرف کشمیر کی تاریخ میں دیکھا گیا کہ اسمبلی کے اندر وزیراعلیٰ اور اسپیکر کی موجودگی میں ایک ممبر نے وزیر تعلیم کے خلاف رشوت لینے کا الزام لگایا ۔ اس کے باوجود مذکورہ وزیر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ بلکہ اسے سیاسی محاذ آرائی قرار دے کر معاملہ گول کیا گیا ۔ ماضی کی حکومتوں کے زمانے میں بھی لوگ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ گورنر راج میں صاف و شفاف نظام ملتا ہے ۔ جمہوری ممالک کے لئے ایسے انتظام کو پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تاہم ایسے دور میں ہوئی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔