سرینگر میں الیکٹرانک بس سروس کی باضابطہ شروعات سے پہلے تجرباتی بنیادوں پر ایسی چھے بسیں چلائی گئیں ۔ جمعرات کو اس حوالے سے ٹرائیل رن کے تحت یہ بسیں چلائی گئیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ تجربہ کامیاب رہا ۔ اس موقعے پر کہا گیا کہ سرینگر میں عام شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے دوران بہت سا قیمتی وقت ضایع ہوتا ہے ۔ گاڑیوں کے انتظار میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ کھڑا رہنے سے آدمی کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے ۔ خاص کر غیر معمولی موسم کے دوران اس طرح کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔ ٹرانسپورٹ نظام کو درست اور بہتر بنانے کے لئے موجودہ سرکار نے کئی اقدامات کئے ۔ اس سے پہلے ای رکشا چلائے گئے ۔ جدید طرز کی گاڑیاں بھی چلائی گئیں ۔ لیکن زیادہ بہتری نہیں لائی جاسکی ۔ یہ کل پرسوں کا مسئلہ نہیں ہے کہ جادو کی چھڑی دکھاکر ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر کیا جاسکے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کئی دہائیوں تک سرینگر شہر پر ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کا راج قائم تھا ۔ شہر میں ان کا ایسا دبدبہ تھا کہ ان کے سامنے بات کرنے موت کی دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ۔ پہلے بس اڈوں اور بعد میں سومو اسٹینڈوں میں باضابطہ مافیا راج قائم تھا ۔ دہلی اور ممبئی جس طرح انڈر ورلڈ کا راج تھا ایک زمانے میں سرینگر میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے نام پر غنڈہ راج قائم تھا ۔ اس کو سیاسی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی ۔ اس وجہ سے کسی کو بھی ان کے ساتھ چھیڑنے بلکہ ان کے سامنے بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ۔ یہ اپنی مرضی سے سارا نظام چلاتے تھے ۔ اس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ نظام درہم برہم ہوا ۔ اس کو سدھارنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی ۔ اب موجودہ سرکار کی کوشش ہے کہ لوگوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جائیں ۔ اس سے پہلے ریلوے نظام کو بہتر بنایا گیا ۔ اس ذریعے سے ہائی وے پر سفر کرنے والوں کو تین دہائیوں کے بعد ٹریفک جام سے نجات مل گئی ۔ اب سرینگر کے اندر الیکٹرانک بسیں چلاکر عوام کو جدید طرز کی ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ توقع کی جاتی ہے کہ عام شہریوں کے لئے سفر کرنا آسان اور سستا ہوجائے گا ۔
سمارٹ سٹی منصوبے کے تحت سرینگر میں سرکار نے کئی اقدامات کئے ۔ سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھوں اور بازاروں کو جدید لائنوں پر ڈالنے کا کام کیا گیا ۔ اب الیکٹرانک بسیں چلاکر ایک عوام دوست قدم اٹھایا جارہاہے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ لندن کے طرز پر عوام کو بس سہولیات مہیا ہونگی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ نظام تباہ ہونے کے بعد بیشتر شہریوں کی کوشش رہی کہ نجی ٹرانسپورٹ سہولیات مہیا رہیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے وقت پر کہیں پہنچنا ممکن نہیں رہا ۔ کسی بیمار کو لالچوک سے صورہ ہسپتال تک پہنچنے میں دو سے تین گھنٹوں کو وقت درکار رہتا تھا ۔ اس وقت تک ہسپتال میں اتنی بھیڑ جمع ہوئی ہوتی تھی کہ پورا دن ڈاکٹر سے ملنے کے انتظار میں گزرجاتا تھا ۔ اسی صورتحال کا سامنا ان طلبہ کو کرنا پڑتا تھا جنہیں کشمیر یونیورسٹی یا انجینئرنگ کالج جانا ہو ۔ دکان داروں کو اپنی دکانوں پر پہنچنے کے لئے گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھنا پڑتا تھا ۔ یہ چند روٹوں کا نہیں بلکہ پوری شہر کا حال یہی تھا ۔ بلکہ اندرون شہر جانے کے لئے سرے سے کوئی ٹرانسپورٹ سہولت میسر ہی نہیں ہے ۔ ایسے مسافروں کو رکشوں کا انتظام کرنا پڑتا تھا ۔ یہ سال دس سال پہلے کی بات نہیں ۔ بلکہ آج بھی یہی صورتحال ہے ۔ لوگ بسوں کے بجائے سومو میں سفر کرنے چار پانچ گنا زیادہ کرایہ دیتے ہیں کیونکہ اس ذریعے سے انہیں آرام بھی ملتا ہے اور وقت بھی بچ جاتا ہے ۔ اب پچھلے کچھ عرصے سے بے روزگاری کی وجہ سے نجی آمدنی میں کافی کمی آگئی ہے ۔ لوگوں میں سفر کے دوران زیادہ اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ۔ اس موقعے پر بس سروس فراہم کرنا یقینی طور مالی اخراجات میں کمی کا سبب ہوگا ۔ مغرب میں لوگ زیادہ تر بسوں میں سفر کرنے کو فوقیت دیتے ہیں ۔ وہاں بلا وجہ پیسے جایع کرنے کی عادت نہیں ۔ بلکہ بچت کرنا دانائی مانی جاتی ہے ۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ لوگوں بسوں میں سفر کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ یورپ میں بڑے بڑے تاجر بلکہ وزیر اور سرکاری حکام بسوں میں روزانہ سفر کرتے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہاں اس کا رواج نہیں ہے ۔ وہاں لوگ پیسہ اپنی صحت اور تعلیم پر خرچ کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں عیش و عشرت پر شاہانہ اخرجات اٹھائے جاتے ہیں ۔ اب ایسی عادات کو ترک کرنا ہوگا ۔ لوگوں کو بچت اسکیموں پر توجہ دینی چاہئے ۔ ایسا کرکے اگلی نسلوں کے لئے کچھ جمع کرنا ممکن ہوگا ۔ بصورت دیگر انہیں سخت مشکلات اٹھانا پڑیں گے ۔ سرکار نے الیکٹرانک بسیں چلانے کا بروقت فیصلہ لیا ۔ اس سے شہریوں کو بہتر سہولیات کے علاوہ بہتر عادات ڈالنے میں مدد ملے گی ۔ خاص طور سے روزانہ سفر کرنے والوں کو بڑی سہولت میسر آئے گی ۔ وقت کی بچت کے ساتھ پیسہ بھی بچ جائے گا ۔ موجودہ مرحلے پر ان دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو اس طرح کی زندگی اختیار کرنا ہوگی ۔ پانی کی طرح پیسہ بہانا کوئی اعلیٰ اقدار نہیں ۔ بلکہ فضول خرچی کے عادی لوگ کسی نہ کسی مرحلے پر پچھتاتے ہیں ۔