پیر کو مس ورلڈ دیگر کئی حسینائوں کے کشمیر پہنچ گئی جہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ مس ورلڈ کی کشمیر آمد کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے ۔ خبر رساں ایجنسیوں ، اخباروں اور سوشل میڈیا کارکنوں نے ان کی کشمیر آمد کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ۔ ان کی آمد اور مصروفیات کے حوالے سے میڈیا میں تصاویر کا انبار لگادیا گیا ۔ مس ورلڈ کی کشمیر آمد کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جارہاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی آمد سے کشمیر سیاحت کو فروغ ملے گا اور سیاح یہاں آنے کو ترجیح دیں گے ۔ سیاحتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایسی نمایاں اور عالمی اہمیت کی شخصیات کشمیر آئیں تو سیاحت کو فروغ ملنا یقینی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی آمد سے بڑے پیمانے پر بیرونی سیاح کشمیر آنا پسند کریں گے ۔ مس ورلڈ نے کشمیر پر پہلی نظر پڑتے ہی یہاں کے قدرتی حسن کی تعریف کی اور کہا کہ اپنے عزیز و اقارب کو کشمیر لانے میں وہ وقت ضایع نہیں کریں گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر کسی کو کشمیر آنے کی دعوت دیں گی ۔ مس ورلڈ نے یہاں کے خوبصورت مناظر سے متاثر ہوکر کہا کہ کوئی بھی سیاح کشمیر کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے ۔ مس ورلڈ کیرولینا کے ساتھ عالمی شہرت کی حامل جو دیگرحسینائیں کشمیر آئی ہیں ان میں کیریبین ایمی ، امریکہ کی شیری سینی ، انگلینڈ کی جسیکاکیگن اور مس ورلڈ آرگنائزیشن کی چیرپرسن بھی شامل ہیں ۔ یہ کوئی دو درجن حسینائوں پر مشتمل گروپ ہے جو ایک غیرسرکاری تنظیم کے تعاون سے محکمہ سیاحت کی دعوت پر کشمیر آیا ہے ۔ اس گروہ کے کشمیر آنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاریخی نوعیت کا واقع ہے ۔ اس سے پہلے ایسا کوئی گروہ کشمیر نہیں آیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے حلقوں کی اس گروہ کی کشمیر آمد پر نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ اسے موجودہ انتظامیہ کا بڑا اقدام مانا جاتا ہے ۔
ایل جی انتظامیہ اور محکمہ سیاحت کی پچھلے کچھ عرصے سے کوشش ہے کہ بیرونی سیاح بڑے پیمانے پر کشمیر آئیں ۔ ایسے حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاحت کے شعبے کو بڑا دھچکا لگا ہے اور یہ شعبہ پچھلے تیس سالوں سے اتھل پتھل ہوچکا ہے ۔ اس طرح کی افراتفری سے سیاحت سے وابستہ افراد کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ موجودہ انتظامیہ نے سیاحتی مراکز کو جدید خطوط پر ڈالنے کی کوششوں کے علاوہ سیاحوں کی کشمیر آمد کے لئے کافی سہولیات فراہم کیں ۔ اس دوران G20 ممالک کے سیاحتی گروپ کا ایک اہم اجلاس سرینگر میں منعقد کیا گیا ۔ پچھلے ستھر سالوں کے دوران عالمی نوعیت کا یہ ایسا منفرد اجلاس ہے جو سرینگر میں منعقد کیا گیا ۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ عالمی اجلاس کے انعقاد کے بعد بیرونی ممالک سے ریکارڈ توڑ تعداد میں سیاح کشمیر آگئے ۔ اس طرح کی سرگرمیاں ایک طویل وقفے کے بعد کشمیر میں دیکھنے کو ملیں ۔ سرینگر کی سڑکوں ، سیاحتی مراکز اور ہوٹلوں میں سیاحوں کا کافی رش دیکھنے کو ملا ۔ ملک کے مختلف علاقوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے سیاح بھی یہاں آزادی سے گھومتے دیکھے گئے ۔ یہ بڑی پیش رفت ہے جس سے سیاحتی شعبے کو فائدہ ملنے کا امکان ہے ۔ اس طرح کی سرگرمیوں کے لئے موجودہ ایل جی انتظامیہ کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ مانا جاتا ہے ۔ انتظامیہ کی طرف سے ایسی سرگرمیاں ممکن بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا گیا ۔ سرینگر کے مارکٹ کو دیدہ زیب بنانے کے علاوہ سرینگر سے باہر کی سڑکوں کو بھی اپ گریڈ کیا گیا ۔ اس سے پہلے ایسی سڑکوں پر سیاحوں کو لے کر گاڑیوں میں سفر کرنا کافی تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا ۔ ایل جی انتظامیہ نے دو تین سالوں کے اندر کشمیر کے دور دراز علاقوں میں سڑکوں کو اپ گریڈ کرنے کاکام انجام دیا ۔ جو کام پچھلے ستھر سالوں کے دوران کسی حکومت نے نہیں کیا ۔ موجودہ سرکار نے اس کام کو مختصر مدت کے اندر مکمل کیا اور سفری سہولیات فراہم کرکے سیاحوں کی نقل و حمل کو آرام دہ بنایا ۔ ٹورازم شعبے سے منسلک تمام افراد کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی جو چہل پہل نظر آرہی ہے وہ بڑی حوصلہ افزا ہے ۔ ان سرگرمیوں سے سیاحتی شعبے کو کافی سہارا ملا ہے ۔ دیہی علاقوں میں بھی سیاحوں کی دلچسپی دیکھنے کو ملی ۔ اس بات کا تصور کرنا محال تھا کہ ان پہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں جانا سیاح پسند کریں گے ۔ تاہم موجودہ سرکار کی دلچسپی کی وجہ سے سیاح سرینگر کے چند علاقوں تک محدود رہنے کے بجائے دیہی علاقوں میں گھومتے دیکھے گئے ۔ اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان سیاح شہروں کے بجائے دیہی علاقوں کی ثقافت اور وہاں کے کلچر کو دیکھنا اور سمجھنا پسند کرتے ہیں ۔ ایل جی سرکار کی بھی کوشش ہے کہ ثقافتی ورثے کو بحال کرکے سیاحوں کو ایسا چیزوں کی طرف راغب کیا جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ مس ورلڈ اور ان کی ٹیم کی کشمیر آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ سرکار ان کی کشمیر آمد سے مدد لے کر دنیا بھر کے سیاحوں کو کشمیر آنے پر راغب کرنا چاہتی ہے ۔ مس ورلڈ نے اس تناظر میں بہتر بیانات دئے ۔ ان کے بیانات ، سرگرمیوں اور کشمیر کے سیاحتی مقامات سے ان کی دلچسپی دکھانے سے یقینی طور کشمیر سیاحت کو فروغ ملے گا ۔ اب یہ محکمہ سیاحت اور ٹریول ایجنسیوں کا کام ہے کہ وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں ۔