چار سالوں کی مسلسل خانہ نظر بندی کے بعد جمعہ کو میر واعظ عمر فاروق سرینگر کی جامع مسجد میں پہنچ گئے ۔ صبح کو یہ خبر سامنے آگئی تھی کہ میرواعظ کو رہا کرکے آج جامع مسجد جانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ جامع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے تصدیق کی کہ میرواعظ کو رہا کرکے جامع مسجد میں نماز ادا کرنے اور وعظ خوانی کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس دوران معلوم ہوا کہ وقف بورڈ کی سربراہ نے میر منزل جاکر وہاں میرواعظ سے ملاقات کی اور انہیں ان کی رہائی پر مبارک باد دی ۔ اس خبر سے میر واعظ کے معتقدین کے علاوہ عام لوگوں میں بھی خوشی کی لہر پائی گئی ۔ بعد میں جب میر واعظ جامع مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو نگین میں واقع ان کی رہائش گاہ سے لے کر جامع مسجد کے مین گیٹ تک لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔ نوجوان ان کے حق میں نعرے لگارہے تھے ۔ لوگوں نے ان کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک خوش گوار قدم قرار دیا ہے ۔ این سی کے سربراہ عمر عبداللہ نے میر واعظ کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی رہائی سے خوش گوار ماحول بنانے میں مدد ملے گی ۔ اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے بھی میر واعظ کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیرداخلہ کے علاوہ ایل جی کا شکریہ ادا کیا ۔ یاد رہے کہ بخاری نے میر واعظ کی رہائی سے ایک روز پہلے میڈیا کے سامنے بیان دیا تھا کہ وہ کالعدم جماعت اسلامی کے ورکروں اور حریت کانفرنس کے رہنمائوں کو اپنی پارٹی میں آنے کی دعوت دی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے جماعت اور حریت کارکنوں کے لئے پارٹی کے دروازے کھلے ہونے کا اعلان کیا ۔ ان کے اس بیان کو معنی خیز قرار دیا جاتا ہے ۔ تاہم بہت سے سیاسی ، سماجی اور عوامی حلقوں میں میر واعظ کی رہائی کو خوش آئند اقدام قرار دیا جاتا ہے ۔
میرواعظ عمر فاروق کو 2019 میں حکومت نے اس وقت اپنے گھر میں نظر بند کیا تھا جب جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرکے اس کو دو یونین ٹریٹیوں میں تقسیم کیا گیا ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئین ہند میں موجود دفعہ 370 کے علاوہ دفعہ 35 A کو منسوخ کیا گیا ۔ کسی عوامی احتجاج سے بچنے کے لئے جہاں کئی درجن مین اسٹریم لیڈروں کو گرفتار کیا گیا وہاں میرواعظ کو ان کی اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کیا گیا ۔ جب سے لے کر آج تک کئی بار ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔ لیکن کوئی توجہ نہ دی گئی ۔ اب چار سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد جمعہ کو ان کی رہائی عمل میں لائی گئی ۔ تاہم سیکورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں مبینہ طور حفاظتی دستے کی نگرانی میں گھر سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ میر واعظ نے اپنی رہائی کے حوالے سے عدالت عالیہ کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ پہلے اقدام کے طور انہوں نے انتظامیہ کو لیگل نوٹس بھیجی تھی جس میں میر واعظ کی رہائی کے حوالے سے سرکار سے وجوہات طلب کی گئی تھی ۔ کوئی باضابطہ جواب آنے سے پہلے ایل جی کا یہ اعلان سامنے آیا کہ میر واعظ کو سرکار نے گرفتار نہیں رکھا ہے بلکہ حفاظتی بند بست کے تحط گھر میں رہنے کے لئے کہا گیا ۔ تاہم ایل جی نے ان کی نقل وحمل پر کسی قسم کی پابندی سے انکار کیا ۔ اس کے بعد میر واعظ کے رہائی کے اشرے دئے جاتے تھے ۔ جمعہ کو جب وہ اپنی رہائش گاہ سے نکل کر جامع مسجد پہنچ گئے تو یہاں لوگوں نے انہیں پھولوں کی مالائیں پہنائی اور ان کے حق میں نعرہ بازی کی ۔ میر واعظ مخصوص لباس میں جامع مسجد کے ممبر پر پہنچ گئے تو اپنے آنسو کو نہ روک سکے اور زار قطار رونے لگے ۔ بعد میں اپنے آپ پر قابو پانے کے بعد انہوں نے نماز سے پہلے روایتی لب و لہجے میں لوگوں سے خطاب کیا ۔ اس دوران لوگوں نے کافی جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا ۔میر واعظ نے سرکاری ہدایات کا احترام کرتے ہوئے کسی قسم کا اشتعال انگیز بیان دینے سے احتراز کیا ۔ آگے جاکر ان کا ایجنڈا کیا رہے گا تاحال کچھ معلوم نہیں ہوسکا ۔ میر واعظ کی رہائی بلا شبہ ایک بڑا قدم ہے جو کشمیر انتظامیہ کی طرف سے اٹھایا گیا ۔ اس کے کشمیر سیاست اور سرینگر کے حالات پر یقینی طور مثبت اثرات پڑیں گے ۔ میرواعظ کا آگے کا ایجنڈا کیا رہے گا اس بارے میں قیاس کرنا ابھی قبل از وقت ہے ۔ تاہم ان کی رہائی کو خیرسگالی کا اقدام قرار دیا جاتا ہے ۔ اس سے پہلی ایل جی انتظامیہ کی طر سے کئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے عوام میں اچھا تاثر دیکھا گیا ۔ محرم کے مینے میں کربلا کے شہدا کے احترام میں سرینگر میں جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ۔ کہا گیا کہ کم و بیش 35 سالوں کے بعد ایسا جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ۔ اسی طرح سرینگر میں G20 ممالک کے سیاحتی گروپ کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اس کے تناظر میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ مل گیا اور کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد ملکی سیاحوں کے ساتھ غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں کشمیر سیر و تفریح کے لئے پہنچ گئے ۔ تازہ ترین اقدام میر واعظ کی رہائی اور ان کو جمعہ خطبے کی اجازت ہے ۔ اس سے یقینی طور ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ امید کی جارہی ہے کہ میر واعظ کے بعد دوسرے نظر بندوں کو رہا کرنے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔