کئی مہینوں کی خشک سالی کے بعد دو دن کے لئے برف باری ہوئی ۔ اس سے تمام حلقوں میں راحت محسوس کی گئی ۔ کسانوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔ باغبان خوش ہورہے ہیں۔ دوسرے عوامی طبقوں نے بھی اس پر مسرت کا اظہار کیا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برف باری تسلی بخش نہیں ہوئی ۔ کئی علاقوں میں اتنی کم برف گری کہ اگلے روز ہی پگھل کر غائب ہوگئی ۔ تاہم انتہائی مایوس کن صورتحال میں اس قدر برف باری پر بھی خوشی کا اظہار کیا جارہاہے ۔ ایک ایسے مرحلے پر جبکہ مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور برف باری کی تمام امیدیں ختم ہوچکی تھیں دو چار انچ برف بھی بڑی نعمت سمجھی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی حلقوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسی برف کسی طور سال بھر کے لئے کافینہیں ہوسکتی ہے ۔ اس سے عام لوگوں کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں نہ کسانوں کے لئے کوئی وسائل پورے ہوسکتے ہیں ۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر سال بھاری برف باری ہوجائے اور قدرت ہمارے لئے تمام وسائل فراہم کردے ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ آنے والے وقت میں اس سے کہیں زیادہ کشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ فضائی آلودگی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں بارش ہونے اور برف گرنے کے بہت کم امکانات ہیں ۔ اس دوران اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنایا جائے ۔ پانی کے ذخائر بڑی تیزی سے ختم ہورہے ہیں ۔ اس دوران خشک سالی کی وجہ سے ذخائر میں کوئی اضافہ ہونے کا امکان نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کی صورتحال ہمیں بیدار کرنے کے بجائے خوب غفلت میں ڈال رہی ہے ۔ خبردار ہونے کے بجائے ہم ٹال متول سے کام لے رہے ہیں ۔ ہم اصل صورتحال سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور آنے والے ایام کے لئے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کررہے ۔ یقینی طور یہ کام انفرادی سطح پر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے کام کے لئے سرکار کو طریقہ کار تلاش کرنا ہوگا ۔ اس دوران عوام کو اصل صورتحال سے باخبر ہوکر سرکار کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے ۔ بیداری کی رو عوامی حلقوں سے شروع ہونی چاہئے ۔ چلہ کلان کے شروع میں عوام بڑے خوش تھے کہ برف باری نہیں ہوئی ۔ دن کو کھلی دھوپ میں کام کرنے کا موقع ملا تو عوام ہر طرح سے مطمئن نظر آرہے تھے ۔ پھر جب چلہ کلان کا کاتمہ ہونے لگا اور اس دوران مسلسل خشک سالی کا سامنا رہا تو لوگوں کو احساس ہوا ایسی صورتحال ہمارے لئے بہتر نہیں بلکہ مشکل صورتحال کا پیش خیمہ ہے ۔ اس کے بعد ہی لوگوں نے رونا دھونا شروع کیا ۔ اس کے باوجود موسم میں کوئی خوش گوار تبدیلی نہیں آئی ۔ یہاں تک کہ جنوری کا مہینہ گزرنے کے بعد ہی مغربی ہوائوں میں کچھ ہل چل پیدا ہوئی ۔ ان ہوائوں کا رخ شمالی کشمیر کی طرف ہوا تو وہاں ایک آدھ فٹ برف گرگئی ۔ جنوبی کشمیر میں بہت کم برف گری ۔ اس سے اندازہ ہونا چاہئے کہ موسم میں تبدیلی ہماری مرضی سے نہیں بلکہ ایک باضابطہ عمل سے ہوتا ہے ۔ ایسا نہ ہوجائے تو ہم کتنا بھی چیخیں چلائیں ہماری ضرویات پورا نہیں وسکتی ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ حقیقت ھال سے باخبر ہوکر آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔
خشک سالی کا سامنا صرف کشمیر کو نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس نے کئی حلقوں کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ اس کا حل تاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ لیکن نتائج حوصلہ بخش نہیں ہیں ۔ کشمیر کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں زندگی کا سارا دارو مدار قدرتی آبی وسائل پر ہے ۔ کچھ مہینوں کی خشک سالی نے زندگی کا پورا نظام ہی تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ پہلے مرحلے پر بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں جس قدر بھی بجلی فراہم کی جاتی ہے پن بجلی پروجیکٹوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ ندی نالوں میں پانی کی سطح کم ہوتے ہی بجلی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسی طرح زمینداری اور باغبانی کے لئے آبپاشی کا ایک ہی وسیلہ ہے بارش اور برف ۔ اس حوالے سے کمی پیش آئی تو حالات دگر گوں ہوگئے ۔ یہاں مصنوعی بارش یا آبپاشی کے متبادل طریقوں کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ وہی نہریں ہیں جو ستھر سال پہلے موجود تھیں ۔ نہروں کا کوئی نیا نظام وجود میں نہیں لایا گیا ۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کا سارا نظام قدرتی آبی وسائل پر منحصر ہے ۔ پانی کے یہ ماخذ سوکھ گئے تو ہر طرف ہا ہا کار مچ جاتی ہے ۔ ایسا ہونا قدرتی بات ہے ۔ یہ صورتحال ہمارے لئے ایک وارننگ ہے ۔ ہمارے اندر ذرہ برابر بھی دانائی ہے اور عقل اک کچھ حصہ باقی ہے تو ہمیں آنے والے وقت کے لئے بچائو کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہونگے ۔ ایسا کسی طور ضروری نہیں کہ اب ہر سال برف باری ہوجائے اور ہماری منشا کے مطابق ہوگی ۔ تاکہ ہمارے لئے زندہ رہنے کو یہ وسیلہ بن جائے ۔ بلکہ آثار و قرائن سے یہی لگ رہاہے کہ مستقبل انتہائی دشوار گزار ہوگا اور سخت مصائب کا سامنا کرنا ہوگا ۔ احتیاطی تدابیر لازمی بن گئے ہیں ۔ اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ مصنوعی طریقوں سے گلیشر بنانے ہونگے اور ڈیم تیار کرکے پانی کے دیرپا ذخائر تیار کرنا ہونگے ۔ ورنہ زندگی کا خاتمہ یقینی ہے ۔
