حکومت نے نئے فوجداری قوانین نافذ کرنے کے لئے نوٹفکیشن جاری کیا ہے ۔ ان قوانین کو پچھلے سال پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی گئی تھی ۔ اس درمیان گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ہٹ اینڈ رن قانون کی شق کو فی الحال معطل رکھا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ ڈرائیوروں نے اس قانونی شک کو اپنے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا اور اس پر ملک گیر احتجاج کیا تھا ۔ بعد میں فریقین کے درمیان بات چیت میں طے پایا تھا کہ اس حوالے سے از سر نو غور کیا جائے گا ۔ وزارت داخلہ کی طرف سے واضح کیا گیا تھا کہ قانونی شک کسی بھی طبقے کے خلاف نہیں ہے ۔ بلکہ قانون کا احترام نہ کرنے والے افراد اس کی ذیل میں لاکر مجرم قرار پائیں گے ۔ لیکن ڈرائیوروں نے اس وضاحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا اس وجہ سے ان کو قانون نافذ کرنے والے ادارے تنگ کریں گے ۔ ان باتوں کو خاطر میں لاکر حکومت نے متعلقہ قانونی شق کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس قانون کے تحت کسی بھی ایسے ڈرائیور کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے جس کی لاپرواہی سے کوئی بھی شخص گاڑی کے نیچے آنے سے فوت ہوجائے ۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے کسی قانون کا جائزہ لینے اور اطلاق سے متعلق ٹرانسپورٹ یونینوں سے مشورہ کے بعد ہی حتمی شکل دی جائے گی ۔ ڈرائیوروں نے قانونی شق کی معطلی پر اطمینان کا سانس لیا ہے اور اسے حکومت کا درست فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے حوصلہ افزا قدم قرار دیا ہے ۔ وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت انصاف کے نفاذ پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کا مقصد کسی کو سزا دینا یا تنگ کرنا نہیں ہے ۔ یہ دوسری بار ہے جب حکومت نے عوام یا کسی عوامی طبقے کی طرف سے حکومتی اقدام کی مخالفت کرنے پر قانون کو معطل کیا ہے ۔ اس سے پہلے کسانوں نے حکومت کی پالیسی پر ملک گیر اور طویل ہڑتال کی تھی ۔ کسانوں کے ہڑتال کے دوران کچھ پر تشدد اور ہلاکت خیز واقعات پیش آئے تھے ۔ شورع میں سرکار نے کسانوں کی ہڑتال کو بے جا قرار دیتے ہوئے احتجاج کو ملک کے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا ۔ بعد میں وزیراعظم نے کسانوں کے خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے ذاتی طور ان کے اعتراض کو درست قرار دیتے ہوئے حکومتی پالیسی کے واپس لینے کا اعلان کیا ۔ آج ایک بار پھر حکومت نے ٹرک ڈرائیوروں کے احتجاج کے پیش نظر ہٹ اینڈ رن قانونی شق کو معطل کرنے کا اعلان کیا ۔ اس طرح سے حکومت نے ظاہر کیا کہ ہٹ دھرمی کے بجائے افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائی جاسکتی ہے ۔
حکومت نے جن تین نئے فوجداری قوانین کے اطلاق کا اعلان کیا ہے اصل میں انڈین پینل کوڈ میں موجود قوانین کی نئی شکل ہے ۔ انڈین پینل کوڈ انگریزوں کے زمانے میں تشکیل پایا تھا اور آج تک نافذلعمل ہے ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یہ قوانین غلامی کے دور کی باقیات ہیں ۔ ان قوانین سے ملک کے شہریوں کے ذہنوں پر ابھی تک غلامی کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ غلامی کے ہتھکنڈوں سے مکمل طور آزادی پانے اور اپنے مفادات کو خاطر میں لانے کے لئے نئے فوجداری قوانین تشکیل دئے گئے ہیں ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ایسے پورے نظام کو تبدیل کرکے نیا قانونی نظام نافذ کیا جائے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ مقامی ضرورتوں کے مطابق ایسا قانونی نظام تشکیل دیا جائے جو پوری طرح سے اپنا نظام ہو ۔ اس پر ملک کے اکثریتی طبقے کی خواہشات کا پلڑہ بھاری ہو ۔ حکومت نے شروع سے اپنے عوام سے کئی اہم وعدے کئے ہیں ۔ ان وعدوں میں جہاں رام مندر کی تعمیر اور دفعہ تین سو ستھر کا خاتمہ شامل تھا وہاں یکسان سیول کوڈ کے نفاذ کا وعدہ بھی شامل ہے ۔ باقی وعدے پورے کرنے کے بعد حکومت نئے قانونی نظام کی طرف توجہ دے رہی ہے ۔ اس حوالے سے بہت سے قانونی ماہرین کو مبینہ طور مشورے میں شامل کیا گیا ہے ۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ جلد از جلد نئے فوجداری قانونی نظام اور یکساں سیول کوڈ کے حوالے سے کام شروع کیا جائے ۔ نئے قانونی نظام کے لئے پچھلے سال ہی ان تین قوانین کی منظوری پارلیمنٹ سے لی گئی تھی جن کے اطلاق کا اعلان کیا گیا ۔ ان قوانین کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کو جولائی سے نافذ العمل خیال کیا جائے گا ۔ اس طرح سے قانونی ڈھانچے وک از سر نو کھڑا کرنے کے لئے کام کا آغاز کیا گیا ۔ حکومت چاہتی ہے کہ ہر اس وعدے وک عملی شکل دی جائے جو وعدے عوام سے کئے گئے ہیں ۔ حکومت کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ عوام نے جس مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہیں ووٹ دیا ہے ان مقاصد کو ہر صورت میں حاصل کیا جائے گا ۔ بلکہ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ پہلی بار عوامی حمایت اور ان کی خواہشات کے مطابق کام کیا جارہاہے ۔ پچھلی حکومتیں ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے وعدے تو کرتی تھی ۔ لیکن ان وعدوں کو بعد میں نظر انداز کیا جاتا تھا ۔ موجودہ سرکار اس پالیسی سے ہٹ کر کام کررہی ہے اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔
